براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا: کیا اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس سے وضو کرو“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 494]
وضاحت: ۱؎: یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ اونٹ کا گوشت ناقض وضو ہے، یہی صحیح مذہب ہے، اور عام طور پر اصحاب حدیث کی یہی رائے ہے، جو لوگ اسے ناقض وضو نہیں مانتے وہ اس حدیث کی تاویل کرتے ہیں کہ یہاں وضو سے وضو شرعی مراد نہیں ہے، بلکہ اس سے وضو لغوی یعنی ہاتھ منہ دھونا مراد ہے۔
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم اونٹ کا گوشت کھائیں تو وضو کریں، اور بکری کا گوشت کھائیں تو وضو نہ کریں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 495]
وضاحت: ۱؎: اونٹ اور بکری کے گوشت میں تفریق کی حکمت اور وجہ جاننا ضروری نہیں کیونکہ یہ تعبدی احکام ہیں، ان کی حکمت کا عقل میں آنا ضروری نہیں، شارع کے نزدیک اس میں کوئی نہ کوئی حکمت و مصلحت ضرور پوشیدہ ہوگی گو وہ ہماری عقل میں نہ آئے۔
اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بکری کا دودھ پی کر وضو نہ کرو، البتہ اونٹنی کا دودھ پی کر وضو کرو“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 496]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 154، ومصباح الزجاجة: 204)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/352، 5/122) (ضعیف)» (سند میں حجاج بن ارطاة ضعیف اور مدلس راوی ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، اور سابقہ صحیح احادیث میں اونٹ کے گوشت وضو کا حکم ہے، نہ کہ اونٹنی کے دو دھ پینے سے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف قال البوصيري: ’’ ھذا إسناد ضعيف لضعف حجاج بن أرطاة وتدليسه،لا سيما وقد خالف غيره ‘‘ وحجاج بن أرطاة ضعيف (د 1820) و الحديث السابق (الأصل: 495) يغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 395
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”اونٹ کے گوشت سے وضو کر لیا کرو، اور بکری کے گوشت سے وضو نہ کرو، اور اونٹنی کے دودھ سے وضو کیا کرو، اور بکری کے دودھ سے وضو نہ کرو، بکریوں کے باڑوں میں نماز پڑھو، اور اونٹ کے باڑوں میں نماز نہ پڑھو“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 497]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 7416، ومصباح الزجاجة: 205) (ضعیف)» (سند میں بقیہ مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، نیز خالد بن یزید مجہول ہیں، اس لئے یہ حدیث ضعیف ہے، اور حدیث کا دوسرا ٹکڑا «وتوضئوا من ألبان الإبل ولا توضئوا من ألبان الغنم» ضعیف اور منکر ہے، بقیہ حدیث یعنی پہلا اور آخری ٹکڑا شواہد کی وجہ سے صحیح ہے، یعنی اونٹ کے گوشت سے وضو اور بکری کے گوشت سے عدم وضو، ملاحظہ ہو: صحیح أبی داود: 177)
وضاحت: ۱؎: آگ پر پکی دیگر چیزوں کے استعمال سے وضو ضروری نہیں ہے، لیکن اونٹ کے گوشت کا معاملہ جدا ہے، اسی لئے شریعت نے اس کو الگ ذکر کیا ہے، اب ہماری سمجھ میں اس کی مصلحت آئے یا نہ آئے ہمیں فرماں برداری کرنا ضروری ہے۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف خالد بن يزيد بن عمر الفزاري مجهول الحال (تقريب: 1689) و الحديث السابق (الأصل: 495) يغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 395