ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانچ چیزیں فطرت ہیں ۱؎، یا پانچ باتیں فطرت میں سے ہیں: ختنہ کرانا، ناف کے نیچے کے بال صاف کرنا، ناخن تراشنا، بغل کے بال اکھیڑنا، مونچھوں کے بال تراشنا“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 292]
وضاحت: ۱؎: فطرت یعنی انبیاء کرام کی سنت قدیمہ ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے پسند فرمایا ہے، بعض لوگوں کے نزدیک فطرت سے مراد جبلت یعنی مزاج و طبیعت ہے جس پر انسان کی پیدائش ہوئی ہے، یہاں «حصر» مراد نہیں اس کے بعد والی روایت میں «عشر من الفطرة»(فطرت کے دس کام) کے الفاظ آئے ہیں۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دس چیزیں فطرت میں سے ہیں: مونچھوں کے بال تراشنا، داڑھی بڑھانا، مسواک کرنا، ناک میں پانی ڈالنا، ناخن تراشنا، انگلیوں کے جوڑوں کو دھونا، بغل کے بال اکھیڑنا، موئے زیر ناف صاف کرنا، اور پانی سے استنجاء کرنا“۔ زکریا نے کہا کہ مصعب کہتے ہیں: میں دسویں چیز بھول گیا، ہو سکتا ہے وہ کلی کرنا ہو۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 293]
عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کلی کرنا، ناک میں پانی ڈالنا، مسواک کرنا، مونچھ کاٹنا، ناخن کاٹنا، بغل کے بال اکھیڑنا، ناف کے نیچے کا بال صاف کرنا، انگلیوں کے جوڑوں کو دھونا، اور وضو کے بعد شرمگاہ پر پانی کا چھینٹا مارنا، اور ختنہ کرانا فطرت میں سے ہیں“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 294]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الطہارة 29 (54)، (تحفة الأشراف: 10350)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/264) (حسن)» (شواہد کی بناء پر یہ حدیث حسن ہے، ورنہ اس کی سند میں علی بن زید بن جدعان ضعیف راوی ہے)
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سنن أبي داود(54) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 386
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمارے لیے مونچھوں کے تراشنے، موئے زیر ناف مونڈنے، بغل کے بال اکھیڑنے، اور ناخن تراشنے کے بارے میں وقت کی تعیین کر دی گئی ہے کہ ہم انہیں چالیس دن سے زیادہ نہ چھوڑے رکھیں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 295]
وضاحت: ۱؎: بال اور ناخن جب بڑے ہوں تو انہیں کاٹ لینا چاہئے، اگر کسی مجبوری سے نہ کاٹ سکیں تو زیادہ سے زیادہ مدت چالیس دن ہے، اس کے بعد ضرور کاٹ دینا چاہئے۔