بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: انسان کے جسم میں تین سو ساٹھ جوڑ ہیں اور انسان کو چاہیئے کہ ہر جوڑ کی طرف سے کچھ نہ کچھ صدقہ دے، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے نبی! اتنی طاقت کس کو ہے؟ آپ نے فرمایا: ”مسجد میں تھوک اور رینٹ کو چھپا دینا اور (موذی) چیز کو راستے سے ہٹا دینا بھی صدقہ ہے، اور اگر ایسا اتفاق نہ ہو تو چاشت کی دو رکعتیں ہی تمہارے لیے کافی ہیں“۔ [سنن ابي داود/أبواب السلام /حدیث: 5242]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 1965)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/354، 359) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن مشكوة المصابيح (1315) صححه ابن خزيمة (1226 وسنده حسن)
ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابن آدم کے ہر جوڑ پر صبح ہوتے ہی صدقہ عائد ہو جاتا ہے، تو اس کا اپنے ملاقاتی سے سلام کر لینا بھی صدقہ ہے، اس کا معروف (اچھی بات) کا حکم کرنا بھی صدقہ ہے اور منکر (بری بات) سے روکنا بھی صدقہ ہے، اس کا راستہ سے تکلیف دہ چیز ہٹانا بھی صدقہ ہے، اور اس کا اپنی بیوی سے ہمبستری بھی صدقہ ہے“ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! وہ تو اس سے اپنی شہوت پوری کرتا ہے، پھر بھی صدقہ ہو گا؟ (یعنی اس پر اسے ثواب کیونکر ہو گا) تو آپ نے فرمایا: ”کیا خیال ہے تمہارا اگر وہ اپنی خواہش (بیوی کے بجائے) کسی اور کے ساتھ پوری کرتا تو گنہگار ہوتا یا نہیں؟“(جب وہ غلط کاری کرنے پر گنہگار ہوتا تو صحیح جگہ استعمال کرنے پر اسے ثواب بھی ہو گا) اس کے بعد آپ نے فرمایا: اشراق کی دو رکعتیں ان تمام کی طرف سے کافی ہو جائیں گی (یعنی صدقہ بن جائیں گی)۔ ابوداؤد کہتے ہیں: حماد نے اپنی روایت میں امر و نہی (کے صدقہ ہونے) کا ذکر نہیں کیا۔ [سنن ابي داود/أبواب السلام /حدیث: 5243]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح مسلم/المسافرین 13 (720)، (تحفة الأشراف: 11928)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/167، 178) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح انظر الحديث السابق (1285)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک شخص نے جس نے کبھی کوئی بھلا کام نہیں کیا تھا کانٹے کی ایک ڈالی راستے پر سے ہٹا دی، یا تو وہ ڈالی درخت پر (جھکی ہوئی) تھی (آنے جانے والوں کے سروں سے ٹکراتی تھی) اس نے اسے کاٹ کر الگ ڈال دیا، یا اسے کسی نے راستے پر ڈال دیا تھا اور اس نے اسے ہٹا دیا تو اللہ اس کے اس کام سے خوش ہوا اور اسے جنت میں داخل کر دیا“۔ [سنن ابي داود/أبواب السلام /حدیث: 5245]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 12323)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الأذان32 (652)، المظالم 28 (2472)، صحیح مسلم/البر والصلة 36 (1914)، الإمارة 51 (1914)، سنن الترمذی/البر والصلة 38 (1958)، سنن ابن ماجہ/الأدب 7 (3682)، موطا امام مالک/صلاة الجماعة 2 (6)، مسند احمد (2/341) (حسن صحیح)»
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (2472) صحيح مسلم (1914 بعد ح2617)