معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ دو شخصوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گالی گلوج کی تو ان میں سے ایک کو بہت شدید غصہ آیا یہاں تک کہ مجھے ایسا محسوس ہونے لگا کہ مارے غصے کے اس کی ناک پھٹ جائے گی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے ایک ایسا کلمہ معلوم ہے کہ اگر وہ اسے کہہ دے تو جو غصہ وہ اپنے اندر پا رہا ہے دور ہو جائے گا“ عرض کیا: کیا ہے وہ؟ اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: ”وہ کہے «اللهم إني أعوذ بك من الشيطان الرجيم»”اے اللہ! میں شیطان مردود سے تیری پناہ مانگتا ہوں“ تو معاذ اسے اس کا حکم دینے لگے، لیکن اس نے انکار کیا، اور لڑنے لگا، اس کا غصہ مزید شدید ہوتا چلا گیا۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَدَبِ/حدیث: 4780]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن الترمذی/الدعوات 52 (3452)، (تحفة الأشراف: 11342)، وقد أ خرجہ: مسند احمد (5/240، 244) (ضعیف)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف سنده ضعيف ترمذي (3452) عبد الرحمٰن بن أبي ليلي لم يدرك سيدنا معاذ بن جبل رضي اللّٰه عنه و للحديث شاھد ضعيف عند النسائي في الكبري (10223) فيه عبد الملك بن عمير مدلس و عنعن انوار الصحيفه، صفحه نمبر 166
سلیمان بن صرد کہتے ہیں کہ دو شخصوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گالی گلوج کی تو ان میں سے ایک کی آنکھیں سرخ ہو گئیں، اور رگیں پھول گئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے ایک ایسا کلمہ معلوم ہے کہ اگر وہ اسے کہہ دے تو جو غصہ وہ اپنے اندر پا رہا ہے دور ہو جائے گا، وہ کلمہ «أعوذ بالله من الشيطان الرجيم»، تو اس آدمی نے کہا: کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ مجھے جنون ہے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَدَبِ/حدیث: 4781]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/بدء الخلق 11 (3282)، الأدب 44 (6050)، 75 (6115)، صحیح مسلم/البر والصلة 30 (2610)، (تحفة الأشراف: 4566)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/394) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: غالباً اس نے یہ سمجھا کہ «أعوذ بالله من الشيطان الرجيم» پڑھنا جنون ہی کے ساتھ مخصوص ہے، یا ہو سکتا ہے کہ وہ کوئی منافق یا غیر مہذب اور غیر مہذب بدوی رہا ہو۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (2382) صحيح مسلم (2610)
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے اور وہ کھڑا ہو تو چاہیئے کہ بیٹھ جائے، اب اگر اس کا غصہ رفع ہو جائے (تو بہتر ہے) ورنہ پھر لیٹ جائے“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَدَبِ/حدیث: 4782]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 12001)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/152) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مشكوة المصابيح (5114) وھو في مسند أحمد (5/152 ح21348) واتحاف المھرة لابن حجر بحواله مسند أحمد (17527) وجامع المسانيد لابن كثير (11486) وتھذيب الكمال للمزي (21170) وسنده صحيح
بکر سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوذر کو بھیجا آگے یہی حدیث مروی ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: دونوں حدیثوں میں یہ زیادہ صحیح ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَدَبِ/حدیث: 4783]
ابووائل قاص کہتے ہیں کہ ہم عروہ بن محمد بن سعدی کے پاس داخل ہوئے، ان سے ایک شخص نے گفتگو کی تو انہیں غصہ کر دیا، وہ کھڑے ہوئے اور وضو کیا، پھر لوٹے اور وہ وضو کئے ہوئے تھے، اور بولے: میرے والد نے مجھ سے بیان کیا وہ میرے دادا عطیہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”غصہ شیطان کے سبب ہوتا ہے، اور شیطان آگ سے پیدا کیا گیا ہے، اور آگ پانی سے بجھائی جاتی ہے، لہٰذا تم میں سے کسی کو جب غصہ آئے تو وضو کر لے“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَدَبِ/حدیث: 4784]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 9903)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/226) (ضعیف)» (عروة بن محمد لین الحدیث ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن مشكوة المصابيح (5113) عروة بن محمد السعدي وأبوه وثقھما ابن حبان والحاكم والذھبي وغيرھم فحديثھما لا ينزل عن درجة الحسن