ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں انسان ہی ہوں ۱؎، تم اپنے مقدمات کو میرے پاس لاتے ہو، ہو سکتا ہے کہ تم میں کچھ لوگ دوسرے کے مقابلہ میں اپنی دلیل زیادہ بہتر طریقے سے پیش کرنے والے ہوں تو میں انہیں کے حق میں فیصلہ کر دوں جیسا میں نے ان سے سنا ہو، تو جس شخص کے لیے میں اس کے بھائی کے کسی حق کا فیصلہ کر دوں تو وہ اس میں سے ہرگز کچھ نہ لے کیونکہ میں اس کے لیے آگ کا ایک ٹکڑا کاٹ رہا ہوں“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَقْضِيَةِ/حدیث: 3583]
وضاحت: ۱؎: یعنی میں انسان ہوں اور انسان کو معاملہ کی حقیقت اور اس کے باطنی امر کا علم نہیں ہوتا، اس لیے کتاب اللہ کے ظاہر کے موافق لوگوں کے درمیان فیصلہ کروں گا، اگر کوئی شخص اپنی منہ زوری اور چرب زبانی سے دھوکا دے کر حاکم سے اپنے حق میں فیصلہ لے لے اور دوسرے کا حق چھین لے تو وہ مال اس کے حق میں اللہ کے نزدیک حرام ہو گا اور اس کا انجام جہنم کا عذاب ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جیسے اور لوگوں کو غیب کا حال معلوم نہیں ظاہر پر فیصلہ کرتے ہیں اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی غیب کی ہر بات معلوم نہیں، موجودہ زمانہ کی عدالتی کارروائیوں اور وکلاء کی چرب زبانیوں اور رشوتوں اور سفارشوں کے نتیجہ میں ہونے والی جیت سے خوش ہونے والے مسلمانوں کے لئے اس ارشاد نبوی میں بہت بڑی موعظت اور نصیحت ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (6967) صحيح مسلم (1713)
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو شخص اپنے میراث کے مسئلے میں جھگڑتے ہوئے آئے اور ان دونوں کے پاس بجز دعویٰ کے کوئی دلیل نہیں تھی، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔۔۔ (پھر راوی نے اسی کے مثل حدیث ذکر کی) تو دونوں رو پڑے اور ان میں سے ہر ایک دوسرے سے کہنے لگا: میں نے اپنا حق تجھے دے دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں سے فرمایا: ”جب تم ایسا کر رہے ہو تو حق کو پیش نظر رکھ کر (مال) کو تقسیم کر لو، پھر قرعہ اندازی کر لو اور ایک دوسرے کو معاف کر دو“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَقْضِيَةِ/حدیث: 3584]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 18174)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/320) (صحیح)» (سیاق حدیث میں زائد چیزیں ہیں، اس لئے شیخ البانی نے اسامة بن زید لیثی کے حفظ پر نقد کرتے ہوئے اس حدیث کی تصحیح نہیں کی ہے) (الصحیحة: 455)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن مشكوة المصابيح (3770)
اس سند سے بھی ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے یہی حدیث مروی ہے، اس میں اتنا اضافہ ہے کہ وہ دونوں ترکہ اور کچھ چیزوں کے متعلق جھگڑ رہے تھے جو پرانی ہو چکی تھیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہارے درمیان اپنی رائے سے فیصلہ کرتا ہوں جس میں مجھ پر کوئی حکم نہیں نازل کیا گیا ہے“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَقْضِيَةِ/حدیث: 3585]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبو داود، وانظر ما قبلہ (تحفة الأشراف: 18174) (صحیح)» (سابقہ حدیث کا نوٹ ملاحظہ ہو)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: حسن مشكوة المصابيح (3770) انظر الحديث السابق (3584)
ابن شہاب کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے منبر پر فرمایا: ”لوگو! رائے تو صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی درست تھی کیونکہ اللہ تعالیٰ آپ کو سجھاتا تھا، اور ہماری رائے محض ایک گمان اور تکلف ہے ۱؎“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَقْضِيَةِ/حدیث: 3586]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 19406) (ضعیف)» (زہری کی عمر رضی اللہ عنہ سے ملاقات نہیں ہے)
وضاحت: ۱؎: یعنی ہم معاملہ کو سمجھ کر اور غور و فکر کرکے کوئی رائے قائم کرتے ہیں پھر اس پر بھی اطمینان نہیں کہ وہ درست ہو۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف مقطوع
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف قال المنذري: ’’ ھذا منقطع،الزهري لم يدرك عمر رضي اللّٰه عنه ‘‘ (عون المعبود 329/3) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 127
معاذ بن معاذ کہتے ہیں ابوعثمان شامی نے مجھے خبر دی اور میری نظر میں ان سے (یعنی حریز بن عثمان سے) کوئی شامی افضل نہیں ۱؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَقْضِيَةِ/حدیث: 3587]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبو داود (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ناسخین کی غلطی سے کسی دوسری حدیث کی سند کی بابت یہ کلام یہاں درج ہو گیا ہے، یا اس سند سے مروی حدیث درج ہونے سے رہ گئی ہے۔