ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں قریش عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس کا روزہ نبوت سے پہلے رکھتے تھے، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ آئے تو آپ نے اس کا روزہ رکھا، اور اس کے روزے کا حکم دیا، پھر جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو رمضان کے روزے ہی فرض رہے، اور عاشورہ کا روزہ چھوڑ دیا گیا اب اسے جو چاہے رکھے جو چاہے چھوڑ دے۔ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2442]
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں ہم عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے، پھر جب رمضان کے روزوں فرضیت نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ (یوم عاشوراء) اللہ کے دنوں میں سے ایک دن ہے لہٰذا جو روزہ رکھنا چاہے رکھے، اور جو نہ چاہے نہ رکھے“۔ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2443]
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو یہودیوں کو یوم عاشورہ کا روزہ رکھتے ہوئے پایا، اس کے متعلق جب ان سے دریافت کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ یہ وہ دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (وضاحت) کو فرعون پر فتح نصیب کی تھی، چنانچہ تعظیم کے طور پر ہم اس دن کا روزہ رکھتے ہیں، (یہ سن کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہم موسیٰ علیہ السلام کے تم سے زیادہ حقدار ہیں“، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2444]