ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابن آدم کے ہر جوڑ پر صبح ہوتے ہی (بطور شکرانے کے) ایک صدقہ ہوتا ہے، اب اگر وہ کسی ملنے والے کو سلام کرے تو یہ ایک صدقہ ہے، کسی کو بھلائی کا حکم دے تو یہ بھی صدقہ ہے، برائی سے روکے یہ بھی صدقہ ہے، راستے سے کسی تکلیف دہ چیز کو ہٹا دے تو یہ بھی صدقہ ہے، اپنی بیوی سے صحبت کرے تو یہ بھی صدقہ ہے البتہ ان سب کے بجائے اگر دو رکعت نماز چاشت کے وقت پڑھ لے تو یہ ان سب کی طرف سے کافی ہے ۱؎۔“ ابوداؤد کہتے ہیں: عباد کی روایت زیادہ کامل ہے اور مسدد نے امر و نہی کا ذکر نہیں کیا ہے، ان کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ فلاں اور فلاں چیز بھی صدقہ ہے اور ابن منیع کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ لوگوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! ہم میں سے ایک شخص اپنی (بیوی سے) شہوت پوری کرتا ہے تو یہ بھی اس کے لیے صدقہ ہے؟ آپ نے فرمایا: ”(کیوں نہیں) اگر وہ کسی حرام جگہ میں شہوت پوری کرتا تو کیا وہ گنہگار نہ ہوتا ۲؎؟۔“[سنن ابي داود/كتاب التطوع /حدیث: 1285]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح مسلم/المسافرین 13 (720)، (تحفة الأشراف: 11928)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/167، 168) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: نماز الضحیٰ کی رکعتوں کی تعدادکے سلسلہ میں روایتوں میں اختلاف ہے، دو، چار، آٹھ اور بارہ تک کا ذکر ہے اس سلسلہ میں صحیح بات یہ ہے کہ روایتوں کے اختلاف کو گنجائش پر محمول کیا جائے، اور جتنی جس کو توفیق ملے پڑھے، اس فرق کے ساتھ کہ آٹھ رکعت تک کا ذکر فعلی حدیثوں میں ہے اور بارہ کا ذکر قولی حدیث میں ہے، بعض نے اسے بدعت کہا ہے، لیکن بدعت کہنا غلط ہے، متعدد احادیث سے اس کا مسنون ہونا ثابت ہے، تفصیل کے لئے دیکھئے (مصنف ابن ابی شیبہ۲/۴۰۵) اکثر علما کے نزدیک چاشت اور اشراق کی نماز ایک ہی ہے، جو سورج کے ایک یا دو نیزے کے برابر اوپر چڑھ آنے پر پڑھی جاتی ہے، اور بعض لوگوں نے کہا ہے کہ چاشت کی نماز اشراق کے بعد پڑھی جاتی ہے۔ ۲؎: یعنی جب حرام جگہ سے شہوت پوری کرنے پر گنہگار ہو گا تو حلال جگہ سے پوری کرنے پر اجر و ثواب کا مستحق کیوں نہ ہو گا۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح انظر الحديث الآتي (1286، 5243)
ابوالاسود الدولی کہتے ہیں کہ ہم لوگ ابوذر رضی اللہ عنہ کے پاس تھے کہ اسی دوران آپ نے کہا: ہر روز صبح ہوتے ہی تم میں سے ہر شخص کے جوڑ پر ایک صدقہ ہے، تو اس کے لیے ہر نماز کے بدلہ ایک صدقہ (کا ثواب) ہے، ہر روزہ کے بدلہ ایک صدقہ (کا ثواب) ہے، ہر حج ایک صدقہ ہے، اور ہر تسبیح ایک صدقہ ہے، ہر تکبیر ایک صدقہ ہے، اور ہر تحمید ایک صدقہ ہے، اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان نیک اعمال کا شمار کیا پھر فرمایا: ”ان سب سے تمہیں بس چاشت کی دو رکعتیں کافی ہیں۔“[سنن ابي داود/كتاب التطوع /حدیث: 1286]
معاذ بن انس جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص فجر کے بعد چاشت کے وقت تک اسی جگہ بیٹھا رہے جہاں اس نے نماز پڑھی ہے پھر چاشت کی دو رکعتیں پڑھے اس دوران سوائے خیر کے کوئی اور بات زبان سے نہ نکالے تو اس کی تمام خطائیں معاف کر دی جائیں گی وہ سمندر کے جھاگ سے زیادہ ہی کیوں نہ ہوں“۔ [سنن ابي داود/كتاب التطوع /حدیث: 1287]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 11293)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/439) (ضعیف)» (اس کے راوی زبَّان ضعیف ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف زبان : شيخ صالح زاهد،ضعيف من جهة حفظه وتكلموا في حديثه عن سهل بن معاذ أيضًا وقال ابن حجر في التقريب (1985) : ’’ زبان ضعيف الحديث مع صلاحه وعبادته ‘‘ و قال الھيثمي : ضعفه الجمھور (مجمع الزوائد 105/10) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 54
ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک نماز کے بعد دوسری نماز کی ادائیگی اور ان دونوں کے درمیان میں کوئی بیہودہ اور فضول کام نہ کرنا ایسا عمل ہے جو علیین میں لکھا جاتا ہے“۔ [سنن ابي داود/كتاب التطوع /حدیث: 1288]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 4900)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/263) (حسن)»
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن انظر الحديث السابق (558)
نعیم بن ہمار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ”اے ابن آدم! اپنے دن کے شروع کی چار رکعتیں ۱؎ ترک نہ کر کہ میں دن کے آخر تک تجھ کو کافی ہوں گا یعنی تیرا محافظ رہوں گا“۔ [سنن ابي داود/كتاب التطوع /حدیث: 1289]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابوداود، سنن النسائی/ الکبری الصلاة 60 (466، 467)، (تحفة الأشراف: 11653)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/286، 287)، سنن الدارمی/الصلاة 150 (1492) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: علماء نے ان رکعتوں کو نماز الضحیٰ پر محمول کیا ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مشكوة المصابيح (1314) وللحديث شاھد عند أحمد (4/201، 153 وسنده صحيح)
ام ہانی بنت ابی طالب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے روز چاشت کی نماز آٹھ رکعت پڑھی، آپ ہر دو رکعت پر سلام پھیرتے تھے۔ احمد بن صالح کی روایت میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے روز چاشت کی نماز پڑھی، پھر انہوں نے اسی کے مثل ذکر کیا۔ ابن سرح کی روایت میں ہے کہ ام ہانی کہتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے، اس میں انہوں نے چاشت کی نماز کا ذکر نہیں کیا ہے، باقی روایت ابن صالح کی روایت کے ہم معنی ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب التطوع /حدیث: 1290]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 172 (1323)، (تحفة الأشراف: 18010) (ضعیف)» (اس کے راوی عیاض ضعیف ہیں، لیکن دوسری سندوں سے ام ہانی کی صلاة الضحیٰ کی حدیث صحیح ہے، دیکھئے اگلی حدیث)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: حسن أخرجه ابن ماجه (1323 وسنده حسن) وللحديث شواھد عند البخاري (280)
ابن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ کسی نے ہمیں یہ نہیں بتایا کہ اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو چاشت کی نماز پڑھتے دیکھا ہے سوائے ام ہانی رضی اللہ عنہا کے، انہوں نے یہ بات ذکر کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے روز ان کے گھر میں غسل فرمایا اور آٹھ رکعتیں ادا کیں، پھر اس کے بعد کسی نے آپ کو یہ نماز پڑھتے نہیں دیکھا۔ [سنن ابي داود/كتاب التطوع /حدیث: 1291]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/تقصیر الصلاة 12 (1103)، والتھجد 31 (1176)، والجزیة 9 (3171)، والغازي 50 (4292)، والآدب 94 (6151)، صحیح مسلم/المسافرین 13 (336)، سنن الترمذی/الصلاة 15 (474)، سنن النسائی/الطہارة 143 (226)، (تحفة الأشراف: 18007)، وقد أخرجہ: الحیض 16 (336)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 187 (1323)، موطا امام مالک/قصر الصلاة 8 (28)، مسند احمد (6/341، 342، 343، 423)، سنن الدارمی/الصلاة 151 (1493) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (1103) صحيح مسلم (336 بعد ح 719)
عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چاشت کی نماز پڑھتے تھے؟ انہوں نے کہا: نہیں، سوائے اس کے کہ جب آپ سفر سے آتے۔ میں نے عرض کیا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو سورتیں ملا کر پڑھتے تھے؟ آپ نے کہا: مفصل کی سورتیں (ملا کر پڑھتے تھے)۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب التطوع /حدیث: 1292]
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاشت کی نماز کبھی نہیں پڑھی، لیکن میں اسے پڑھتی ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بسا اوقات ایک عمل کو چاہتے ہوئے بھی اسے محض اس ڈر سے ترک فرما دیتے تھے کہ لوگوں کے عمل کرنے سے کہیں وہ ان پر فرض نہ ہو جائے۔ [سنن ابي داود/كتاب التطوع /حدیث: 1293]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/التھجد 5 (1128)، صحیح مسلم/المسافرین 13 (718)، (تحفة الأشراف: 16590)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/قصر الصلاة 8 (29)، مسند احمد (6/85، 86، 167، 169، 223)، سنن الدارمی/الصلاة 152 (149) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (1128) صحيح مسلم (718)
سماک کہتے ہیں میں نے جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجالست (ہم نشینی) کرتے تھے؟ آپ نے کہا: ہاں اکثر (آپ کی مجلسوں میں رہتا تھا)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس جگہ نماز فجر ادا کرتے، وہاں سے اس وقت تک نہیں اٹھتے جب تک سورج نکل نہ آتا، جب سورج نکل آتا تو آپ (نماز اشراق کے لیے) کھڑے ہوتے۔ [سنن ابي داود/كتاب التطوع /حدیث: 1294]