سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے زمانے میں جمعہ کے دن پہلی اذان اس وقت ہوتی تھی جب امام منبر پر بیٹھ جاتا تھا، پھر جب عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت ہوئی، اور لوگوں کی تعداد بڑھ گئی تو جمعہ کے دن انہوں نے تیسری اذان کا حکم دیا، چنانچہ زوراء ۱؎ پر اذان دی گئی پھر معاملہ اسی پر قائم رہا ۲؎۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب الجمعة /حدیث: 1087]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الجمعة 21 (912)، 22 (913)، 24 (915)، 25 (916)، سنن الترمذی/الصلاة 255 (الجمعة 20) (516)، سنن النسائی/الجمعة 15 (1393)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 97 (1135)، (تحفة الأشراف: 3799)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/450449) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: زوراء مدینہ کے بازار میں ایک جگہ کا نام۔ ۲؎: تکبیر کو شامل کرکے یہ تیسری اذان ہوئی، یہ ترتیب میں پہلی اذان ہے جو خلیفہ راشد عثمان رضی اللہ عنہ کی سنت ہے، دوسری اذان اس وقت ہوگی جب امام خطبہ دینے کے لئے منبر پر بیٹھے گا، اور تیسری اذان تکبیر ہے اگر کوئی صرف اذان اور تکبیر پر اکتفا کرے تواس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی سنت کی اتباع کی۔
سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جمعہ کے روز جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر بیٹھ جاتے تو آپ کے سامنے مسجد کے دروازے پر اذان دی جاتی تھی اسی طرح ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے دور میں بھی مسجد کے دروازے پر اذان دی جاتی۔ پھر راوی نے یونس کی حدیث کی طرح روایت بیان کی۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب الجمعة /حدیث: 1088]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 3799) (منکر)» (زہری سے اس حدیث کو سات آدمیوں نے روایت کی ہے مگر کسی کے یہاں «بین یدی» کا لفظ نہیں ہے)
قال الشيخ الألباني: منكر
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ابن إسحاق عنعن وفي حديث الطبراني (الكبير146/7) في رواية سليمان التيمي: ’’ عند المنبر‘‘ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 49
سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سوائے ایک مؤذن بلال رضی اللہ عنہ کے کوئی اور مؤذن نہیں تھا ۱؎۔ پھر راوی نے اسی مفہوم کی حدیث ذکر کی۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب الجمعة /حدیث: 1089]
وضاحت: ۱؎: جہاں تک اس اعتراض کا تعلق ہے کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بلال، ابن ام مکتوم، ابومحذورہ اور سعد القرط رضی اللہ عنھم پر مشتمل مؤذنین کی ایک جماعت تھی، پھر یہ کہنا کیسے صحیح ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بلال رضی اللہ عنہ کے علاوہ کوئی اور مؤذن نہیں تھا؟ تواس کا جواب یہ ہے کہ مسجد نبوی میں جمعہ کی نماز کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بلال رضی اللہ عنہ کے علاوہ کوئی اور مؤذن نہیں تھا، کیونکہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کے سلسلے میں یہ منقول نہیں ہے کہ وہ جمعہ کی اذان دیتے تھے، اور ابومحذورہ رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ کے مؤذن تھے اورسعد القرط رضی اللہ عنہ قبا کے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف انظر الحديث السابق (1088) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 49
سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک مؤذن کے علاوہ اور کوئی مؤذن نہیں تھا۔ اور راوی نے یہی حدیث بیان کی لیکن پوری نہیں۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب الجمعة /حدیث: 1090]