جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر اور عصر میں «والسماء والطارق»، «والسماء ذات البروج» اور ان دونوں جیسی سورتیں پڑھتے تھے۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 805]
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سورج ڈھل جاتا تو ظہر پڑھتے اور اس میں «والليل إذا يغشى» جیسی سورت پڑھتے تھے، اسی طرح عصر میں اور اسی طرح بقیہ نمازوں میں پڑھتے سوائے فجر کے کہ اسے لمبی کرتے۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 806]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح مسلم/المساجد 33 (618)، سنن النسائی/الإفتتاح 60 (981)، سنن ابن ماجہ/الصلاة 3(673)، (تحفة الأشراف: 2179)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/86، 88، 101، 106، 108) (صحیح)»
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر میں سجدہ کیا پھر کھڑے ہوئے اور رکوع کیا تو ہم نے جانا کہ آپ نے الم تنزیل السجدہ پڑھی ہے۔ ابن عیسیٰ کہتے ہیں: معتمر کے علاوہ کسی نے بھی (سند میں) امیہ کا ذکر نہیں کیا ہے۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 807]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 8559)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/83) (ضعیف)» (اس کے راوی أمیہ مجہول ہیں، نیز سند میں ان کا ہونا نہ ہونا مختلف فیہ ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سليمان التيمي لم يسمعه من أبي مجلز بل سمعه من أمية (انظر مسند أحمد 83/2) وأمية : مجهول كما في التقريب (561) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 42
عبداللہ بن عبیداللہ کہتے ہیں کہ میں بنی ہاشم کے کچھ نوجوانوں کے ہمراہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوا تو ہم نے اپنے میں سے ایک نوجوان سے کہا: تم ابن عباس سے پوچھو کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر اور عصر میں قرآت کرتے تھے؟ ابن عباس نے کہا: نہیں، نہیں، تو ان سے کہا گیا: شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جی میں قرآت کرتے رہے ہوں، اس پر ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: اللہ تمہارے چہرے یا چمڑے میں خراش کرے! یہ پہلی سے بھی بری ہے ۱؎، آپ ایک مامور (حکم کے پابند) بندے تھے، آپ کو جو حکم ملتا وہی لوگوں کو پہنچاتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم (بنی ہاشم) کو کوئی مخصوص حکم نہیں دیا سوائے تین باتوں کے: ایک یہ کہ ہم کامل وضو کریں دوسرے یہ کہ صدقہ نہ کھائیں، تیسرے یہ کہ گدھے کو گھوڑی پر نہ چڑھائیں۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 808]
وضاحت: ۱؎: یہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا وہم ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ظہر اور عصر کی پہلی دونوں رکعتوں میں سورہ فاتحہ اور دوسری سورت کا پڑھنا ثابت ہے، اوپر ابوقتادہ رضی اللہ عنہ اور خباب رضی اللہ عنہ کی روایتیں گزر چکی ہیں جو صریح طور سے اس پر دلالت کرتی ہیں۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن أخرجه النسائي (141 وسنده حسن) وقول ابن عباس ھذا منسوخ لأنه ثبت أنه قال: ’’إقرأ خلف الإمام بفاتحة الكتاب‘‘ رواه ابن المنذر في الأوسط (3/109 وسنده صحيح)، قلت: وإذا المأموم مأمور بالقرأة فكيف الإمام؟
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ مجھے نہیں معلوم کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر اور عصر میں قرآت کرتے تھے یا نہیں۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 809]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 6035)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/249، 257) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح انظر الحديث السابق (808) في نسخه