الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابي داود
كِتَاب الصَّلَاةِ
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
69. باب الإِمَامِ يُصَلِّي مِنْ قُعُودٍ
69. باب: امام کے بیٹھ کر نماز پڑھانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 601
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكِبَ فَرَسًا فَصُرِعَ عَنْهُ فَجُحِشَ شِقُّهُ الْأَيْمَنُ، فَصَلَّى صَلَاةً مِنَ الصَّلَوَاتِ وَهُوَ قَاعِدٌ وَصَلَّيْنَا وَرَاءَهُ قُعُودًا، فَلَمَّا انْصَرَفَ، قَالَ:" إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ، فَإِذَا صَلَّى قَائِمًا فَصَلُّوا قِيَامًا، وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا، وَإِذَا رَفَعَ فَارْفَعُوا، وَإِذَا قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، فَقُولُوا: رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ، وَإِذَا صَلَّى جَالِسًا فَصَلُّوا جُلُوسًا أَجْمَعُونَ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھوڑے پر سوار ہوئے پھر اس سے گر گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں پہلو میں خراش آ گئی جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نماز بیٹھ کر پڑھی، تو ہم لوگوں نے بھی وہ نماز آپ کے پیچھے بیٹھ کر پڑھی، پھر جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: امام اسی لیے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے، جب وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر نماز پڑھو، جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکو ع کرو، جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی سر اٹھاؤ، اور جب وہ «سمع الله لمن حمده» کہے تو تم «ربنا ولك الحمد» کہو، اور جب امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم سب بھی بیٹھ کر پڑھو ۱؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 601]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الصلاة 18 (378)، والأذان 51 (689)، 82 (732)، 128 (805)، وتقصیر الصلاة 17 (1114)، صحیح مسلم/الصلاة 19 (411)، سنن النسائی/امامة 16 (795)، 40 (833)، والتطبیق 22 (1062)، (تحفة الأشراف: 1529)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الصلاة 155 (361)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 144 (1238)، موطا امام مالک/صلاة الجماعة 5 (16)، مسند احمد (3/110، 162)، سنن الدارمی/الصلاة 44 (1291) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: ابتدائے اسلام میں حکم ایسے ہی تھا کہ امام اور مقتدی دونوں ایک ہی حالت میں ہوں۔ لیکن اب یہ حکم نہیں ہے، بلکہ امام کسی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھائے تو مقتدی کھڑے ہو کر ہی نماز پڑھیں گے، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری عمل یہی تھا۔ مقتدی کے لیے واجب ہے کہ انتقال ارکان میں امام سے پیچھے رہے، اس سے سبقت (پہل) نہ کرے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (689) صحيح مسلم (411)

حدیث نمبر: 602
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، وَوَكِيعٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: رَكِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَسًا بِالْمَدِينَةِ فَصَرَعَهُ عَلَى جِذْمِ نَخْلَةٍ فَانْفَكَّتْ قَدَمُهُ، فَأَتَيْنَاهُ نَعُودُهُ فَوَجَدْنَاهُ فِي مَشْرُبَةٍ لِعَائِشَةَ يُسَبِّحُ جَالِسًا، قَالَ: فَقُمْنَا خَلْفَهُ فَسَكَتَ عَنَّا، ثُمَّ أَتَيْنَاهُ مَرَّةً أُخْرَى نَعُودُهُ، فَصَلَّى الْمَكْتُوبَةَ جَالِسًا، فَقُمْنَا خَلْفَهُ فَأَشَارَ إِلَيْنَا فَقَعَدْنَا، قَالَ: فَلَمَّا قَضَى الصَّلَاةَ، قَالَ:" إِذَا صَلَّى الْإِمَامُ جَالِسًا فَصَلُّوا جُلُوسًا، وَإِذَا صَلَّى الْإِمَامُ قَائِمًا فَصَلُّوا قِيَامًا، وَلَا تَفْعَلُوا كَمَا يَفْعَلُ أَهْلُ فَارِسَ بِعُظَمَائِهَا".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں گھوڑے پر سوار ہوئے تو اس نے آپ کو ایک کھجور کے درخت کی جڑ پر گرا دیا، جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں میں موچ آ گئی، ہم لوگ آپ کی عیادت کے لیے آئے، اس وقت ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے کمرے میں بیٹھ کر نفل نماز پڑھتے ملے، ہم لوگ بھی آپ کے پیچھے کھڑے ہو گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے بارے میں خاموش رہے (ہمیں بیٹھنے کے لیے نہیں کہا)۔ پھر ہم دوسری مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عیادت کے لیے آئے تو آپ نے فرض نماز بیٹھ کر ادا کی، ہم لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑے ہو گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اشارہ کیا تو ہم بیٹھ گئے، جب آپ نماز پڑھ چکے تو فرمایا: جب امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر پڑھو، اور جب امام کھڑے ہو کر پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر پڑھو، اور اس طرح نہ کرو جس طرح فارس کے لوگ اپنے سرکردہ لوگوں کے ساتھ کرتے ہیں ۱؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 602]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 144 (1240)، الطب 21 (3485)، (تحفة الأشراف: 2310)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الصلاة 19 (411)، سنن النسائی/الإفتتاح 207 (1201)، مسند احمد (3/334) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: اہل فارس و روم اپنے امراء و سلاطین کے سامنے بیٹھتے نہیں، کھڑے رہتے تھے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
ابن ماجه (3485)
سليمان الأعمش عنعن
و حديث مسلم (413) يغني عنه
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 35

حدیث نمبر: 603
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، وَمُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ المعنى، عَنْ وُهَيْبٍ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ، فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَلَا تُكَبِّرُوا حَتَّى يُكَبِّرَ، وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا وَلَا تَرْكَعُوا حَتَّى يَرْكَعَ، وَإِذَا قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَقُولُوا: اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ، قَالَ مُسْلِمٌ: وَلَكَ الْحَمْدُ، وَإِذَا سَجَدَ فَاسْجُدُوا وَلَا تَسْجُدُوا حَتَّى يَسْجُدَ، وَإِذَا صَلَّى قَائِمًا فَصَلُّوا قِيَامًا، وَإِذَا صَلَّى قَاعِدًا فَصَلُّوا قُعُودًا أَجْمَعُونَ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ، أَفْهَمَنِي بَعْضُ أَصْحَابِنَا، عَنْ سُلَيْمَانَ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: امام بنایا ہی اس لیے گیا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے، تو جب امام «الله أكبر» کہے تو تم بھی «الله أكبر» کہو، تم اس وقت تک «الله أكبر» نہ کہو جب تک کہ امام «الله أكبر» نہ کہہ لے، اور جب امام رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو، تم اس وقت تک رکوع نہ کرو جب تک کہ وہ رکوع میں نہ چلا جائے، جب امام «سمع الله لمن حمده» کہے تو تم «اللهم ربنا لك الحمد» کہو (مسلم کی روایت میں «ولك الحمد» واو کے ساتھ ہے)، پھر جب امام سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو، اور تم اس وقت تک سجدہ نہ کرو جب تک کہ وہ سجدہ میں نہ چلا جائے، اور جب وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر نماز پڑھو، اور جب وہ بیٹھ کر پڑھے تو تم سب بھی بیٹھ کر پڑھو۔ ابوداؤد کہتے ہیں: «اللهم ربنا لك الحمد» کو مجھے میرے بعض ساتھیوں نے سلیمان کے واسطہ سے سمجھایا ہے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 603]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود (تحفة الأشراف: 12882)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الصلاة 20 (417)، سنن النسائی/الافتتاح 30 (920)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 13 (846)، 144 (1238)، مسند احمد (2/376، 420) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: ابتدائے اسلام میں حکم ایسے ہی تھا کہ امام اور مقتدی دونوں ایک ہی حالت میں ہوں۔ لیکن اب یہ حکم نہیں ہے، بلکہ امام کسی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھائے تو مقتدی کھڑے ہو کر ہی نماز پڑھیں گے، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری عمل یہی تھا۔ مقتدی کے لیے واجب ہے کہ انتقال ارکان میں امام سے پیچھے رہے، اس سے سبقت (پہل) نہ کرے۔ یعنی جب میں نے یہ حدیث سلیمان بن حرب سے سنی تو «اللهم ربنا لك الحمد» کے الفاظ میری سمجھ میں نہیں آئے تو میرے بعض ساتھیوں نے مجھے بتایا کہ سلیمان نے: «اللهم ربنا لك الحمد» کہا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح

حدیث نمبر: 604
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ آدَمَ الْمِصِّيصِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ، عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ، بِهَذَا الْخَبَرِ، زَادَ: وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَهَذِهِ الزِّيَادَةُ وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا، لَيْسَتْ بِمَحْفُوظَةٍ الْوَهْمُ عِنْدَنَا مِنْ أَبِي خَالِدٍ.
اس طریق سے بھی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے «إنما جعل الإمام ليؤتم به» والی یہی حدیث نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعاً مروی ہے، اس میں راوی نے «وإذا قرأ فأنصتوا» جب وہ قرأت کرے تو تم خاموش رہو کا اضافہ کیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: «وإذا قرأ فأنصتوا» کا یہ اضافہ محفوظ نہیں ہے، ہمارے نزدیک ابوخالد کو یہ وہم ہوا ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 604]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏سنن النسائی/الإفتتاح 20(922)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 13 (846)، (تحفة الأشراف: 12317)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/420) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
مشكوة المصابيح (857)
أخرجه مسلم (404) ولكنه منسوخ بحديث أبي ھريرة كما في صحيح مسلم (395)

حدیث نمبر: 605
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهَا قَالَتْ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِهِ وَهُوَ جَالِسٌ، فَصَلَّى وَرَاءَهُ قَوْمٌ قِيَامًا فَأَشَارَ إِلَيْهِمْ أَنِ اجْلِسُوا، فَلَمَّا انْصَرَفَ، قَالَ:" إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ، فَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا، وَإِذَا رَفَعَ فَارْفَعُوا، وَإِذَا صَلَّى جَالِسًا فَصَلُّوا جُلُوسًا".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر میں بیٹھ کر نماز پڑھی اور لوگ آپ کے پیچھے کھڑے ہو کر پڑھنے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بیٹھ جانے کا اشارہ کیا، پھر جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: امام اسی لیے مقرر کیا جاتا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے، لہٰذا جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو، جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی سر اٹھاؤ اور جب وہ بیٹھ کر پڑھے تو تم سب بھی بیٹھ کر پڑھو۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 605]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الأذان 51 (688)، وتقصیر الصلاة 17 (1113)، 20 (1119)، (تحفة الأشراف: 17156)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الصلاة 19 (412)، سنن ابن ماجہ/ إقامة الصلاة 144 (1237)، موطا امام مالک/ صلاة الجماعة 5 (17)، مسند احمد (6/114،169) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (688) صحيح مسلم (412)

حدیث نمبر: 606
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، وَيَزِيدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ مَوْهَبٍ الْمَعْنَى، أَنَّ اللَّيْثَ حَدَّثَهُمْ،عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِر، قَالَ: اشْتَكَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَصَلَّيْنَا وَرَاءَهُ وَهُوَ قَاعِدٌ وَأَبُو بَكْرٍ يُكَبِّرُ لِيُسْمِعَ النَّاسَ تَكْبِيرَهُ، ثُمَّ سَاقَ الْحَدِيثَ.
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے تو ہم نے آپ کے پیچھے نماز پڑھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ تکبیر کہتے تھے تاکہ وہ لوگوں کو آپ کی تکبیر سنا دیں، پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 606]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الصلاة 19 (213)، سنن النسائی/الإفتتاح 207 (1201)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 145 (1240)، (تحفة الأشراف: 2907)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/334) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم (413)

حدیث نمبر: 607
حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا زَيْدٌ يَعْنِي ابْنَ الْحُبَابِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ صَالِحٍ، حَدَّثَنِي حُصَيْنٌ مِنْ وَلَدِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ، عَنْ أُسَيْدِ بْنِ حُضَيْرٍ، أَنَّهُ كَانَ يَؤُمُّهُمْ، قَالَ: فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُهُ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ إِمَامَنَا مَرِيضٌ، فَقَالَ:" إِذَا صَلَّى قَاعِدًا فَصَلُّوا قُعُودًا"، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَهَذَا الْحَدِيثُ لَيْسَ بِمُتَّصِلٍ.
اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ اپنی قوم کی امامت کرتے تھے، وہ کہتے ہیں کہ ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی عیادت کے لیے تشریف لائے، تو لوگ کہنے لگے: اللہ کے رسول! ہمارے امام بیمار ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم لوگ بھی بیٹھ کر پڑھو۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث متصل نہیں ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 607]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 152) (صحیح)» ‏‏‏‏ (سابقہ حدیثوں سے تقویت پاکر یہ حدیث معنیً صحیح ہے، ورنہ مؤلف کی سند میں انقطاع ہے، حصین کی اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ سے لقاء ثابت نہیں ہے)

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
محمد بن صالح الأزرق مجھول الحال وحصين بن عبد الرحمٰن الأشھلي لم يدرك أسيد بن حضير
وثبت عن أسيد نحوه موقوفًا انظر الأوسط لابن المنذر (4/ 206،اثر : 2045 وسنده صحيح) وصححه الحافظ في فتح الباري (3/ 176)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 35