امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جو شخص کسی معین درختوں کے پھلوں کو خریدے، یا ایک باغ کے میووں کو خریدے، یا معین بکریوں کے دودھ کو خریدے، تو کچھ قباحت نہیں ہے، بشرطیکہ خریدار قیمت ادا کرتے ہی اپنا مال وصول کرنا شروع کر دے، اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی روپیہ دے کر ایک کپہ میں سے کسی قدر گھی مول لے، اس میں کچھ قباحت نہیں ہے، اگر کپہ قبل گھی لینے کے پھٹ جائے اور گھی بہہ جائے تو خریدار اپنے روپے پھیر لے گا۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْبُيُوعِ/حدیث: 1329Q1]
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر خریدار سے یہ ٹھہرایا کہ جس قدر دودھ روز نکلا کرے یا جتنا میوہ روز اترا کرے وہ لیتا جائے، تو درست ہے ہر روز لے لیا کرے، اگر جتنا خریدا تھا اس قدر مال پورا نہ پہنچا تھا کہ دودھ موقوف ہو گیا یا میوہ تلف ہو گیا، تو بائع جتنا باقی رہ گیا ہے اس کے دام خریدار کو پھیر دے گا، خریدار دوسرا کچھ اسباب بائع سے اس کے بدلے میں لے لے گا، لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ بغیر لیے بائع کو چھوڑ دے، ورنہ مکروہ ہو گا، کیونکہ یہ بیع کالی کی ہے بعوض کالی کے اور منع کیا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْبُيُوعِ/حدیث: 1329Q2]
سوال ہوا امام مالک رحمہ اللہ سے: اگر کوئی باغ کی کھجور بیچے اور اس میں کئی قسمیں کھجور کی ہوں جیسے عجوہ اور کبیس اور عذق وغیرہ، مگر مشتری یہ شرط لگا لے کہ اس باغ میں سے کوئی ایک درخت یا کئی درخت میں چھانٹ دوں گا (یعنی بیع سے مستثنیٰ کر دوں گا)؟ تو یہ درست نہیں کیونکہ اگر اس نے عجوہ کا درخت چھوڑ دیا جس میں پندرہ صاع کھجور تھی اور اس کے بدلے میں کبیس کا درخت لے لیا جس میں دس صاع کھجور تھی یا اس کے برعکس کیا، تو گویا اس نے عجوہ کو کبیس کے بد لے میں کم وبیش فروخت کیا اور یہ ناجائز ہے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْبُيُوعِ/حدیث: 1329Q3]
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ مثال اس کی یہ ہے کہ ایک شخص تین ڈھیر کھجور کے لگائے، ایک عجوہ کا جو پندرہ صاع ہے اور ایک کبیس کا جو دس صاع ہے اور ایک عذق کا جو بارہ صاع ہے، پھر مشتری نے کھجور والے کو ایک دینار دے دیا اس شرط سے کہ ان تینوں ڈھیروں میں سے جو میں چاہوں لے لوں گا، تو یہ جائز نہیں۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْبُيُوعِ/حدیث: 1329Q4]
سوال ہوا امام مالک رحمہ اللہ سے کہ ایک شخص مالکِ باغ سے رطب خرید لے اور ایک دینار اس کی پیشگی دے دے، پھر باغ میں رطب موقوف ہو جائیں؟ امام مالک رحمہ اللہ نے جواب دیا کہ حساب کیا جائے گا کس قدر دینار میں سے بائع کے ذمہ ہو گیا ہے، اگر دو تہائی دینار کے رطب لے چکا ہے تو ایک تہائی باقی وصول کر لے، اگر تین چوتھائی دینار کے رطب لے چکا ہے تو ایک چوتھائی وصول کرے گا۔ یا مشتری بائع کی رضا مندی سے اور کوئی میوہ اس کے باغ میں سے لے لے، مگر جب اور کوئی میوہ اس کے بدلے میں ٹھہرے تو چاہیے کہ فی الفور اس کو وصول کر لے، اس میں دیر نہ کرے ورنہ کالی بالکالی ہو جائے گی۔ _x000D_ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْبُيُوعِ/حدیث: 1329Q5]
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اس کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص اپنے اونٹ یا غلام کو جو درزی یا بڑھئی یا اور کوئی کام کرتا ہو کرایہ کو دے، یا مکان کرایہ پر دے، اور زرِ کرایہ پیشگی لے لے، بعد اس کے اونٹ یا غلام مر جائے اور گھر گر جائے تو اونٹ والا اسی طرح غلام یا مکان والا حساب کر کے جس قدر اجرت اس کے ذمہ باقی رہ گئی ہو واپس کر دے گا، فرض کیجیے کہ اگر مستاجر نے اپنا آدھا حق وصول کیا تھا تو آدھی اجرت اس کو واپس ملے گی۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْبُيُوعِ/حدیث: 1329Q6]
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ان سب صورتوں میں سلف کرنا یعنی اجرت پیشگی دے دینا جب ہی درست ہے کہ اجرت دیتے ہی غلام یا اونٹ یا گھر پر قبضہ کر لے، یا رطب توڑنا شروع کر دے، یہ نہیں کہ اس میں دیر کرے یا کوئی میعاد ٹھہرائے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْبُيُوعِ/حدیث: 1329Q7]
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ یہ سلف مکروہ ہے کہ کوئی شخص اونٹ کا کرایہ دے دے، اونٹ والے سے یہ کہے کہ حج کے دنوں میں تیرے اونٹ پر سوار ہوں گا، اور ابھی حج میں ایک عرصہ باقی ہو یا ایسا ہی غلام اور گھر میں کہے تو یہ صورت گویا اس طرح پر ہوئی کہ اگر وہ اونٹ یا غلام یا گھر اس وقت تک باقی رہے تو اسی کرایہ سے اس سے منفعت اٹھا لے، اور اگر وہ اونٹ یا غلام مر جائے اور گھر گر جائے تو اپنے کرایہ کے پیسے پھیر لے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْبُيُوعِ/حدیث: 1329Q8]
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر وہ شخص کرایہ دیتے ہی اونٹ یا غلام یا گھر پر قبضہ کر لیتا تو کراہت جاتی رہتی، اس کی مثال یہ ہے کہ ایک شخص غلام یا لونڈی خرید کر اپنے قبضے میں لائے اور قیمت ان کی ادا کرے، بعد اس کے کسی عیب کی وجہ سے وہ غلام یا لونڈی واپس کی جائے تو مشتری اپنا زرِ ثمن بائع سے پھیر لے، اور اس میں کچھ قباحت نہیں ہے۔ _x000D_ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جو شخص کسی معین غلام یا اونٹ کو کرایہ پر لے اور قبضے کی ایک میعاد مقرر کر دے، یعنی یہ کہہ دے کہ فلاں تاریخ سے میں اونٹ یا غلام کو اپنے قبضے و تصرف میں لوں گا، تو یہ جائز نہیں، کیونکہ نہ مستاجر نے قبضہ کیا اس اونٹ یا غلام پر نہ مؤجر نے، ایسے دَین میں سلف کی جس کا دینا مستاجر پر واجب ہے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْبُيُوعِ/حدیث: 1329Q9]