حضرت زینب بنت کعب بن عجرہ سے روایت ہے کہ سیدہ فریعہ بنت مالک بن سنان رضی اللہ عنہا جو سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی بہن ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور پوچھا کہ مجھے اپنے لوگوں میں جانے کی اجازت ہے؟ کیونکہ میرے خاوند کے چند غلام بھاگ گئے تھے، وہ ان کو ڈھونڈنے کو نکلے، جب قدوم (ایک مقام ہے مدینہ سے سات میل پر) میں پہنچے وہاں غلاموں کو پایا، اور غلاموں نے میرے خاوند کو مار ڈالا، اور میرا خاوند میرے لیے نہ کوئی ذاتی مکان چھوڑ گیا ہے نہ کچھ خرچ دے گیا ہے، اگر آپ کہیے تو میں اپنے کنبے والوں کے پاس چلی جاؤں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چلی جا۔“ جب میں لوٹ کر چلی، حجرہ کے باہر نہیں پہنچی تھی کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پکارا، یا کسی اور نے آپ کے کہنے پر پکارا، اور مجھ سے پوچھا، میں نے سارا قصہ بیان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسی گھر میں رہ یہاں تک کہ عدت پوری ہو۔“ میں نے اسی گھر میں عدت کی چار مہینہ دس دن تک، جب سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے انہوں نے مجھ سے یہ مسئلہ پوچھوا بھیجا، اور اسی کے موافق حکم کیا۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الطَّلَاقِ/حدیث: 1227]
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه أبو داود فى «سننه» برقم: 2300، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4292، 4293، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 2849، 2850، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3558، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 5692، 5693، 5694، 5696، 10977، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1204، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2333، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2031، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 1365، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 15525، وأحمد فى «مسنده» برقم: 27729، فواد عبدالباقي نمبر: 29 - كِتَابُ الطَّلَاقِ-ح: 87»
حضرت سعید بن مسیّب سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اُن عورتوں کو جو خاوند کے مرنے کے بعد سے عدت میں ہوتی تھیں، بیداء سے پھیر دیتے تھے، حج کو نہ جانے دیتے تھے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الطَّلَاقِ/حدیث: 1228]
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 15505، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 12072، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 19183، 19184، والطحاوي فى «شرح معاني الآثار» برقم: 4592، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 1343، فواد عبدالباقي نمبر: 29 - كِتَابُ الطَّلَاقِ-ح: 88»
یحییٰ بن سعید کو پہنچا کہ حضرت سائب بن خباب کا انتقال ہو گیا تو ان کی بی بی سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس آئیں اور اپنے خاوند کا مرنا بیان کیا، اور کہا کہ میری کچھ کھیتی ہے، اگر آپ اجازت دیجیے تو میں رات کو وہاں رہا کروں۔ انہوں نے اس سے منع کیا، تو وہ مدینہ سے صبح کو جاتیں، دن بھر اپنے کھیت میں رہتیں، اور سارا دن وہاں کاٹتیں، شام کو پھر مدینہ میں آ جاتیں، اور رات بھر اپنے گھر میں بسر کرتیں۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الطَّلَاقِ/حدیث: 1229]
تخریج الحدیث: «موقوف ضعيف، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 15515، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 12064، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 18865، 18866، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 1371، والطحاوي فى «شرح معاني الآثار» برقم: 4585، 4586، فواد عبدالباقي نمبر: 29 - كِتَابُ الطَّلَاقِ-ح: 88ق»
حضرت ہشام بن عروہ سے روایت ہے، ان کے باپ عروہ کہتے تھے کہ جو لوگ جنگل میں رہا کرتے ہیں اگر اُن میں سے کسی کا خاوند مرجائے تو وہ اپنے لوگوں کے ساتھ رہے، جہاں وہ اتریں وہاں وہ بھی اترے (عذر کی وجہ سے)۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الطَّلَاقِ/حدیث: 1230]
تخریج الحدیث: «مقطوع صحيح، وأخرجه البيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 4667، والشافعي فى «المسنده» برقم: 101/2، والشافعي فى «الاُم» برقم: 229/5، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 12076، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 18860، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 1372، فواد عبدالباقي نمبر: 29 - كِتَابُ الطَّلَاقِ-ح: 89»
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے تھے کہ جس عورت کا خاوند مر جائے، یا طلاق دے دے، وہ رات کو اپنے گھر میں رہا کرے (عدت تک)۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الطَّلَاقِ/حدیث: 1231]
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 15505، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 2137، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 12039، 12061، 12062، 12063، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 19170، 19306، والطحاوي فى «شرح معاني الآثار» برقم: 4584، 4587، 4588، 4593، فواد عبدالباقي نمبر: 29 - كِتَابُ الطَّلَاقِ-ح: 90»