حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سوال ہوا کہ حاملہ عورت کا خاوند اگر مر جائے تو وہ کس حساب سے عدت کرے؟ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ دونوں عدتوں میں سے جو عدت دور ہو اس کو اختیار کرے، اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ وضع حمل تک انتطار کرے۔ پھر ابوسلمہ اُم المؤمنین سیدہ اُم سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے اور ان سے جا کر پوچھا، انہوں نے کہا کہ سبیعہ اسلمیہ اپنے خاوند کے مرنے کے بعد پندرہ دن میں جنی، پھر دو شخصوں نے اس کو پیام بھیجا، ایک نوجوان تھا دوسر ادھیڑ، وہ نوجوان کی طرف مائل ہوئی، ادھیڑ نے کہا: تیری عدت ہی ابھی نہیں گزری، اس خیال سے کہ اس کے عزیز وہاں نہ تھے، جب وہ آئیں گے تو شاید اس عورت کو میری طرف مائل کر دیں، پھر سبیعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور یہ حال بیان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیری عدت گرز گئی، تو جس سے چاہے نکاح کر لے۔“[موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الطَّلَاقِ/حدیث: 1223]
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 4909، 5318، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1485، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4295، 4296، 4297، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3540، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 5672، 5673، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1194، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2325، 2326، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 1510، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 15566، 15567، وأحمد فى «مسنده» برقم: 27114، فواد عبدالباقي نمبر: 29 - كِتَابُ الطَّلَاقِ-ح: 83»
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سوال ہوا کہ اگر حاملہ عورت کا خاوند مر جائے تو اس کی عدت کیا ہے؟ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: جب وہ بچہ جنے اس کی عدت پوری ہوگئی۔ اتنے میں ایک شخص انصاری نے کہا کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر خاوند کا جنازہ تخت پر رکھا ہوا ہو اور اس کی عورت بچہ جنے تو اس کی عدت گزر جائے گی۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الطَّلَاقِ/حدیث: 1224]
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 15476، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 4649، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 1521، 1522، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 11718، 11719، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 17379، 17380، والشافعي فى «الاُم» برقم: 224/5، والشافعي فى «المسنده» برقم: 100/2، فواد عبدالباقي نمبر: 29 - كِتَابُ الطَّلَاقِ-ح: 84»
سیدنا مِسوَر بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدہ سُبَیعہ اسلمیہ رضی اللہ عنہا نے اپنے خاوند کے مرنے کے بعد چند روز میں بچہ جنا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اب تیری عدت گزر گئی، جس سے چاہے نکاح کرے۔“[موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الطَّلَاقِ/حدیث: 1225]
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 5320، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4298، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3536، 3537، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 5669، 5670، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2029، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 15562، وأحمد فى «مسنده» برقم: 19219، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 11734، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 17378، والطبراني فى «الكبير» برقم: 5، 6، فواد عبدالباقي نمبر: 29 - كِتَابُ الطَّلَاقِ-ح: 85»
حضرت سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے اس عورت کی عدت میں اختلاف کیا جو خاوند کے مرنے کے پندرہ دن کے بعد بچہ جنے۔ ابوسلمہ نے کہا: جب وہ بچہ جنے تو اس کی عدت گزر گئی، اور سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: نہیں، دونوں عدتوں میں جو دور ہو وہاں تک انتظار کرے، اتنے میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ آئے، انہوں نے کہا کہ میں اپنے بھائی ابوسلمہ کے ساتھ ہوں، پھر ان سب لوگوں نے کریب کو جو سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے مولٰی تھے، بھیجا اُم المؤمنین سیدہ اُم سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس اس مسئلے کو پوچھنے کے واسطے۔ انہوں نے کہا کہ سبیعہ اسلمیہ اپنے خاوند کے مرنے کے چند روز کے بعد جنی، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا، آپ نے فرمایا: ”تو حلال ہوگئی، جس سے چاہے نکاح کرے۔“ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: ہمارے نزدیک یہی حکم ہے، اور ہمارے شہر کے عالم اسی مذہب پر رہے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الطَّلَاقِ/حدیث: 1226]
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 4909، 5318، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1485، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4295، 4296، 4297، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3544، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 5672، 5673، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1194، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2325، 2326، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 1510، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 15498، وأحمد فى «مسنده» برقم: 27114، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6978، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 11723، فواد عبدالباقي نمبر: 29 - كِتَابُ الطَّلَاقِ-ح: 86»