.امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: ایک شخص مر گیا اور اس نے اپنے مال کی زکوٰۃ نہیں دی تو اس کے تہائی مال سے زکوٰۃ وصول کی جائے، نہ زیادہ اس سے، اور یہ زکوٰۃ مقدم ہوگی اس کی وصیتوں پر، کیونکہ زکوٰۃ مثل دین (قرض) کے ہے اس پر، اسی واسطے وصیت پر مقدم کی جائے گی، مگر یہ حکم جب ہے کہ میت نے وصیت کی ہو زکوٰۃ ادا کرنے کی، اگر وہ وصیت نہ کرے لیکن وارث اس کے ادا کریں تو بہتر ہے مگر ان کو ضروری نہیں۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الزَّكَاةِ/حدیث: 666Q1]
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: ہمارے نزدیک سنّتِ اتفاقی یہ ہے کہ وارث پر زکوٰۃ واجب نہیں اس مال کی جو وراثت کی رُو سے اس کو پہنچا، نہ دین میں، نہ اسباب میں، نہ گھر میں، نہ غلام میں، نہ لونڈی میں۔ البتہ ترکے میں سے جب کسی شے کو بیچے اور اس کی بیع پر یا زرِ ثمن کے وصول پر ایک سال گزر جائے تو زکوٰۃ واجب ہوگی۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الزَّكَاةِ/حدیث: 666Q2]
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: ہمارے نزدیک یہ حکم ہے کہ وارث پر اس مال جو وراثت کی رُو سے اس کو پہنچا زکوٰۃ واجب نہیں ہے یہاں تک کہ ایک سال اس پر گزرے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الزَّكَاةِ/حدیث: 666Q3]