سیدہ مرجانہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ سیدنا ابوجہم بن حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تحفہ میں شام کی ایک چادر بھیجی، جس میں نقش (یعنی بیل بوٹے بنے ہوۓ تھے)، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو اوڑھ کر نماز کو آئے، پھر جب فارغ ہوئے نماز سے تو فرمایا: ”یہ چادر ابوجہم کو واپس بھیج دو، کیونکہ میں نے اس کے بیل بوٹوں کو نماز میں دیکھا، پس قریب تھا کہ میں غافل ہو جاؤں۔“[موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الصَّلَاةِ/حدیث: 217]
تخریج الحدیث: «حسن، وأخرجه ابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 928، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2337، 2338، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم:، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 558، 849، وأبو داود فى «سننه» برقم: 914، 4052، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3550، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 3589، 3590، 3942، وأحمد فى «مسنده» برقم: 24721، 24827، والحميدي فى «مسنده» برقم: 172، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 4414، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 1389، شركة الحروف نمبر: 206، فواد عبدالباقي نمبر: 3 - كِتَابُ الصَّلَاةِ-ح: 67»
سیدنا عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چادر شام کی بنی ہوئی نقش و نگار والی پہنی، پھر وہ چادر ابوجہم کو دے دی اور اس سے ایک موٹی سادہ چادر لے لی، تو ابوجہم نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ایسا کس لئے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے نماز میں اس کے نقش ونگار کی طرف دیکھا۔“[موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الصَّلَاةِ/حدیث: 218]
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 373، 752، 5817، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 556، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 928، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2337، 2338، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 772، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 558، 849، وأبو داود فى «سننه» برقم: 914، 4052، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3550، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 3589، 3590، وأحمد فى «مسنده» برقم: 24721، والحميدي فى «مسنده» برقم: 172، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 4414، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 1389، شركة الحروف نمبر: 207، فواد عبدالباقي نمبر: 3 - كِتَابُ الصَّلَاةِ-ح: 68»
سیدنا عبداللہ بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا ابوطلحہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے باغ میں نماز پڑھ رہے تھے، تو ایک چڑیا اُڑی اور باغ سے نکلنے کا راستہ ڈھونڈنے لگی، کیونکہ باغ اس قدر گنجان تھا اور پیڑ آپس میں اس طرح ملے ہوۓ تھے کہ چڑیا کو نکلنے کی جگہ ہی نہیں ملتی تھی۔ پس یہ بات آپ کو بہت اچھی لگی اور اپنے باغ کا یہ حال دیکھ کر آپ بہت خوش ہوئے، پس ایک گھڑی تک اُس کی طرف دیکھتے رہے، پھر نماز کا خیال آیا سو بھول گئے کہ کتنی رکعتیں پڑھیں، تب فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اِس مال سے آزمایا ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور جو کچھ باغ میں ہوا تھا سارا قصہ بیان کیا اور کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ باغ اللہ رب العزت کے واسطے صدقہ ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جہاں چاہیں اِس کو صرف کریں۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الصَّلَاةِ/حدیث: 219]
تخریج الحدیث: «ضعيف، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 3944، والبيهقي فى «معرفة السنن الآثار» برقم: 1150، شركة الحروف نمبر: 208، فواد عبدالباقي نمبر: 3 - كِتَابُ الصَّلَاةِ-ح: 69»
سیدنا عبداللہ بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص انصار میں سے اپنے باغ میں نماز پڑھ رہا تھا، اور وہ باغ قف میں تھا جو ایک وادی کا نام ہے جو مدینے کی وادیوں میں سے ہے، ایسے موسم میں جبکہ کھجور پک کر لٹک رہی تھی گویا پھلوں کے طوق شاخوں کے گلوں میں پڑے تھے، تو اس نے نماز میں اس طرف دیکھا اور نہایت پسند کیا پھلوں کو، پھر جب نماز کا خیال کیا تو بھول گیا کہ کتنی رکعتیں پڑھیں، تو کہا کہ مجھے اس مال میں اللہ رب العزت کی طرف سے آزمائش ہوئی۔ پس وہ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا جو ان دنوں خلیفہ تھے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے) اور اُن سے یہ قصہ بیان کیا، پھر کہا کہ اب یہ (باغ) صدقہ ہے تو اس کو نیک کاموں میں صرف کیجئے۔ سو اس کو سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پچاس ہزار میں بیچا اور اس مال کا نام ہوگیا پچاس ہزارہ۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الصَّلَاةِ/حدیث: 220]
تخریج الحدیث: «موقوف ضعيف، وانفرد به المصنف من هذا الطريق، شركة الحروف نمبر: 209، فواد عبدالباقي نمبر: 3 - كِتَابُ الصَّلَاةِ-ح: 70»