سیدنا سعید بن مسیّب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب لوٹے جنگِ خیبر سے، رات کو چلے جب اخیر رات ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتر پڑے اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”صبح کی نماز کا تم خیال رکھو۔“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو رہے اور جب تک اللہ کو منظور تھا، سیدنا بلال رضی اللہ عنہ جاگتے رہے، پھر سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے تکیہ لگایا اپنے اونٹ پر اور منہ اپنا صبح کی طرف کیے رہے اور لگ گئی آنکھ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کی، تو نہ جاگے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور نہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ اور نہ کوئی شتر سوار، یہاں تک کہ پڑنے لگی ان پر تیزی دھوپ کی، تب چونک اٹھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور فرمایا: ”کیا ہے یہ اے بلال!“ کہا سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے: زور کیا مجھ پر اس چیز نے جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر زور کیا (یعنی نیند نے)، فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے: ”کوچ کرو۔“ تو لادے لوگوں نے کجاوے اپنے۔ تھوڑی دور چلے تھے کہ حکم کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو تکبیر کہنے کا۔ تو تکبیر کہی سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے نماز کی، پھر نماز پڑھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی، بعد اس کے فرمایا جب نماز پڑھ چکے: ”جو شخص بھول جائے نماز کو تو چاہیے کہ پڑھ لے اس کو جب یاد آئے، کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ”قائم کر نماز کو جس وقت یاد کرے مجھ کو۔“[موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ وُقُوْتِ الصَّلَاةِ/حدیث: 24]
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 680، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1459، 2069، 2651، 2652، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 617، 618، 622، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 1601، وأبو داود فى «سننه» برقم: 435، 436، والترمذي فى «جامعه» برقم: 3163، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 697، 1155، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 1924، 1925، وأحمد فى «مسنده» برقم: 9665، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6185، 6208، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 2237، 2244، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 4772، شركة الحروف نمبر: 22، فواد عبدالباقي نمبر: 1 - كِتَابُ وُقُوتِ الصَّلَاةِ-ح: 25»
حضرت زید بن اسلم سے روایت ہے کہ رات کو اترے راہ میں مکہ کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مقرر کیا سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو اس کام پر کہ جگا دیں ان کو واسطے نماز کے، تو سو گئے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ اور سوگئے لوگ، پھر جاگے اور سورج نکل آیا تھا اور گھبرائے لوگ (بسبب قضا ہو جانے نماز کے) تو حکم کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوار ہونے کا تاکہ نکل جائیں اس وادی سے اور فرمایا: ”اس وادی میں شیطان ہے۔“ پس سوار ہوئے اور نکل گئے اس وادی سے تب حکم کیا ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اترنے کا اور وضو کرنے کا، اور حکم کیا سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو اذان کا یا تکبیر کا، پھر نماز پڑھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب لوگوں کے ساتھ، پھر متوجہ ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی طرف اور دیکھا ان کی گھبراہٹ تو فرمایا آپ نے: ”اے لوگوں! بے شک روک رکھا اللہ تعالیٰ نے ہماری جانوں کو، اور اگر چاہتا تو وہ پھیر دیتا ہماری جانوں کو سوا اس وقت کے اور کسی وقت، تو جب سو جائے کوئی تم میں سے نماز سے یا بھول جائے اس کو، پھر گھبرا کے اٹھے نماز کے لیے تو چاہیے کہ پڑھ لے اس کو جیسے پڑھتا ہے اس کو وقت پر۔“ پھر متوجہ ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرف اور فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے: ”شیطان آیا بلال رضی اللہ عنہ کے پاس اور وہ کھڑے ہوئے نماز پڑھتے تھے تو لٹا دیا ان کو، پھر لگا تھپکنے ان کو جیسے تھپکتے ہیں بچے کو یہاں تک کہ سو رہے وہ۔“ اور پھر بلایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو، پس بیان کیا سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے اسی طرح جیسے فرمایا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حال ان کا سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے، تو کہا سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے: میں گواہی دیتا ہوں اس امر کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ وُقُوْتِ الصَّلَاةِ/حدیث: 25]
تخریج الحدیث: «حسن لغيرہ، و أخرجه التمهيد لابن عبدالبر برقم: 204/5، الاستذكار لابن عبدالبر: 330/1، معرفة السنن والآثار للبيهقي: 87/2، دلائل النبوة للبيهقي: 273/4 274 قال شيخ الالباني: مرسل صحيح فى «المشكاة للالباني» : 657، شركة الحروف نمبر: 23، فواد عبدالباقي نمبر: 1 - كِتَابُ وُقُوتِ الصَّلَاةِ-ح: 26» شیخ سلیم ہلالی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ یہ روایت حسن لغیرہ ہے۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے مرسل صحیح کہا ہے۔ [المشكاة: للالباني: 657]