451- سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دو حدیثیں بیان کی تھیں، ان میں سے ایک میں دیکھ چکا ہوں اور دوسری کا انتظار کررہا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی تھی: ”امانت لوگوں کے دلوں کے اندر نازل ہوئی پھر قرآن نازل ہوا تو لوگوں نے قرآن کا علم حاصل کیا اور انہوں نے سنت کا بھی علم حاصل کیا۔“ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امانت کے اٹھا لئے جانے کے بارے میں ہمیں بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ”آدمی سوئے گا، تو اس کے دل سے امانت کو اٹھا لیا جائے گا۔ پھر وہ سوئے گا، تو اس کے دل میں سے امانت کو اٹھا لیا جائے گا، یہاں تک کہ اس کا اس طرح نشان باقی رہ جائے گا، جس طرح آبلے کا نشان ہوتا ہے۔“ پھر سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے کچھ کنکریاں پکڑیں اور انہیں اپنے پاؤں پر ڈالا اور کہا: جس طرح ایک انگارہ اتر تم اپنے پاؤں پر ڈالو، وہ جگہ پھول جائے گی اور جلن محسوس ہوگی، لیکن اس کے اندر کچھ نہیں ہوگا، تو لوگ لین دین کریں گے لیکن ان میں کوئی ایسا شخص نہیں ہوگا جو امانت کو ادا کرے، یہاں تک کہ کسی شخص کے بارے میں یہ کہا جائے گا کہ یہ کتنا تیز اور کتنا چالاک اور کتنا عقلمند ہے، حالانکہ کے اس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان نہیں ہوگا۔ مجھے اپنے بارے میں یہ بات یاد ہے کہ میں پہلے اس بات کی پرواہ نہیں کرتا تھا کہ میں کس کے ساتھ سودا کررہا ہوں، کیونکہ اگر وہ مسلمان ہوتا تو اس کا اسلام اسے میرے ساتھ ٹھیک رکھتا، اگر وہ یہودی یا عیسائی ہوتا، تو اس کا حکمران اسے میرے ساتھ ٹھیک رہنے دیتا، لیکن اب میں صرف فلاں اور فلاں شخص کے ساتھ ہی لین دین کرتا ہوں۔ [مسند الحميدي/أَحَادِيثُ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ/حدیث: 451]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري برقم: 6497، 7086، 7276، ومسلم برقم: 143، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6762، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2179، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 4053، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 23727، 23728، 23729، 23912، والطيالسي فى «مسنده» برقم: 425، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 20194»