452- سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”فتنے کے بارے میں کون ہمیں حدیث سنائے گا“۔ تو میں نے کہا: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”آدمی کے لئے آزمائش اس کی بیوی، اس کے مال اور اس کے پڑوسی میں ہوتی ہے۔ نماز پڑھنا، صدقہ دینا اور روزہ رکھنا اس کا کفارہ بنتے ہیں۔“ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بولے: میں نے اس بارے میں آپ سے دریافت نہیں کیا، میں آپ سے اس فتنے کے بارے میں دریافت کررہا ہوں، جو سمند کی لہروں کی طرح موجزن ہوگا۔ میں نے کہا: آپ کے اور اس کے درمیان ایک بند دروازہ ہے، جو ایک صاحب کے قتل ہونے یا انتقال کرنے کی صورت میں ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا: ”کیا س دروازے کو توڑ دیا جائے گا یا اسے کھولا جائے گا؟“ تو میں نے کہا نہیں، بلکہ اسے توڑ دیا جائے گا، تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بولے: ”پھر تو وہ اس لائق ہوگا کہ قیامت کے دن تک بند نہ ہو“۔ اعمش کہتے ہیں: ہم ہیبت کی وجہ سے سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے یہ دریافت نہیں کرسکے کہ کیا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ یہ بات جانتے تھے کہ دروازے سے مراد وہی ہیں، تو ہم نے مسروق سے یہ کہا انہوں نے سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے یہ سوال کیا۔ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ بولے: جی ہاں! جس طرح تم لوگ یہ بات جانتے ہو کہ کل سے پہلے آج کی رات آئے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے انہیں ایک ایسی حدیث سنائی تھی جس میں غلطی نہیں تھی۔ [مسند الحميدي/أَحَادِيثُ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ/حدیث: 452]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري برقم: 525، 1435، 1895، 3586، 7096، ومسلم برقم: 144، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5966، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 8540، والنسائي في «الكبرى» برقم: 324، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2258، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3955، وأحمد فى «مسنده» برقم: 23752، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 38284»