حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بھوک اور جھوٹ کو اکٹھا نہ کرو۔“[مسند احمد/مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ/حدیث: 27560]
حضرت اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا ”جن کا تعلق بنی عبدالاشہل سے ہے“ کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس سے گزرے، ہم کچھ عورتوں کے ساتھ تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سلام کیا اور فرمایا: ”احسان کرنے والوں کی ناشکری سے اپنے آپ کو بچاؤ“، ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! احسان کرنے والوں کی ناشکری سے کیا مراد ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہو سکتا ہے کہ تم میں سے کوئی عورت اپنے ماں باپ کے یہاں طویل عرصے تک رشتے کے انتظار میں بیٹھی رہے، پھر اللہ اسے شوہر عطاء فرما دے اور اس سے اسے مال و دولت بھی عطاء فرما دے اور وہ پھر کسی دن غصے میں آکر یوں کہہ دے کہ میں نے تو تجھ سے کبھی خیر نہیں دیکھی۔“[مسند احمد/مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ/حدیث: 27561]
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف لضعف شهر بن حوشب، وقد توبع
حضرت اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اپنی اولاد کو خفیہ قتل نہ کیا کرو، کیونکہ حالت رضاعت میں بیوی سے قربت کے نتیجے میں دودھ پینے والا بچہ جب بڑا ہوتا ہے تو گھوڑا اسے اپنی پشت سے گرا دیتا ہے (وہ جم کر گھوڑے پر نہیں بیٹھ سکتا)۔ [مسند احمد/مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ/حدیث: 27562]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة حال مهاجر، وقد انفرد به ، ومثله لا يحتمل تفرده، ثم إنه معارض بحديث صحيح
حضرت اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیعت کرنے حاضر ہوئی، جب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میرے ان دو کنگنوں کے اوپر پڑی جو میں نے پہنے ہوئے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسماء! یہ دونوں کنگن اتار دو، کیا تم اس بات سے نہیں ڈرتیں کہ اللہ ان کے بدلے میں تمہیں آگ کے دو کنگن پہنائے“، چنانچہ میں نے انہیں اتار دیا اور مجھے یاد نہیں کہ انہیں کس نے لے لیا تھا۔ [مسند احمد/مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ/حدیث: 27563]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف داود، و شهر بن حوشب
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”سونا اور ریشم میں سے کچھ بھی چمک کا فائدہ نہیں دیتے۔“[مسند احمد/مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ/حدیث: 27564]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف داود، و شهر بن حوشب
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جس وقت وفات ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زرہ رہن رکھی ہوئی تھی۔ [مسند احمد/مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ/حدیث: 27565]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف شهر بن حوشب
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے، ان کی خدمت میں دودھ پیش کیا گیا، انہوں نے عورتوں سے پوچھا: کیا تم بھی پیو گی؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہمیں اس کی خواہش نہیں ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بھوک اور جھوٹ کو اکٹھا نہ کرو۔“[مسند احمد/مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ/حدیث: 27567]
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کے گھر میں تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خروج دجال سے تین سال قبل آسمان ایک تہائی بارش اور زمین ایک تہائی نباتات روک لے گی، دوسرے سال آسمان دو تہائی بارش اور زمین دو تہائی پیداوار روک لے گی اور تیسرے سال آسمان اپنی مکمل بارش اور زمین اپنی مکمل پیداوار روک لے گی اور ہر موزے اور کھر والا ذی حیات ہلاک ہو جائے گا، اس موقع پر دجال ایک دیہاتی سے کہے گا یہ بتاؤ کہ اگر میں تمہارے اونٹ زندہ کر دوں، ان کے تھن بھرے اور بڑے ہوں اور ان کے کوہان عظیم ہوں تو کیا تم مجھے اپنا رب یقین کر لو گے؟ وہ کہے گا، ہاں! چنانچہ شیاطین اس کے سامنے اونٹوں کی شکل میں آئیں گے اور وہ دجال کی پیروی کرنے لگے گا۔ اسی طرح دجال ایک اور آدمی سے کہے گا یہ بتاؤ کہ اگر میں تمہارے باپ، تمہارے بیٹے اور تمہارے اہل خانہ میں سے ان تمام لوگوں کو جنہیں تم پہچانتے ہو زندہ کر دوں تو کیا تم یقین کر لو گے کہ میں ہی تمہارا رب ہوں، وہ کہے گا، ہاں! چنانچہ اس کے سامنے شیاطین ان صورتوں میں آ جائیں گے اور وہ دجال کی پیروی کرنے لگے گا“، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے اور اہل خانہ رونے لگے، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم واپس آئے ہم اس وقت رو رہے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تم کیوں رو رہے ہو؟“ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ نے دجال کا جو ذکر کیا ہے، واللہ! میرے گھر میں جو باندی ہے، وہ آٹا گوندھ رہی ہوتی ہے، ابھی وہ اسے گوندھ کر فارغ نہیں ہونے پاتی کہ میرا کلیجہ بھوک کے مارے پارہ پارہ ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے، تو اس دن ہم کیا کریں گے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس دن مسلمانوں کے لئے کھانے پینے کی بجائے تکبیر اور تسبیح و تحمید ہی کافی ہو گی“، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مت روؤ، اگر میری موجودگی میں دجال نکل آیا تو میں اس سے مقابلہ کروں گا اور اگر میرے بعد اس کا خروج ہوا تو ہر مسلمان پر اللہ میرا نائب ہے۔“[مسند احمد/مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ/حدیث: 27568]
حكم دارالسلام: وهذا إسناده ضعيف لضعف شهر بن حوشب، قوله: "ان يخرج الدجال وانا فيكم، فانا حجيجه" فهو صحيح لغيره
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ آیت اس طرح پڑھتے ہوئے سنا ہے: «إِنَّهُ عَمِلَ غَيْرَ صَالِحٍ» اور اس آیت کو اس طرح پڑھتے ہوئے سنا ہے: «يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ , لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ , إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا , وَلَا يُبَالِي , إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ» ۔ [مسند احمد/مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ/حدیث: 27569]
حكم دارالسلام: الشطر الأول حسن بشاهده، وهذا إسناد ضعيف لضعف شهر بن حوشب، وقد اختلف عليه فيه
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دوران خطبہ یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اے لوگو! تمہیں اس طرح جھوٹ میں گرنے کی ”جیسے پروانے آگ میں گرتے ہیں“ کیا مجبوری ہے؟ ابن آدم کا ہر جھوٹ اس کے خلاف لکھا جاتا ہے، سوائے تین جگہوں کے، ایک تو وہ آدمی جو اپنی بیوی کو خوش رکھنے کے لئے جھوٹ بولے، دوسرے وہ آدمی جو جنگ میں جھوٹ بولے، تیسرے وہ آدمی جو دو مسلمانوں کے درمیان صلح کرانے کے لئے جھوٹ بولے۔ [مسند احمد/مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ/حدیث: 27570]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف شهر بن حوشب ، وقد اختلف عليه فيه
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”دجال زمین میں چالیس سال تک رہے گا، اس کا ایک سال ایک مہینے کے برابر، ایک مہینہ ایک جمعہ کے برابر، ایک جمعہ ایک دن کی طرح اور ایک دن چنگاری بھڑکنے کی طرح ہو گا۔“[مسند احمد/مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ/حدیث: 27571]
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان خواتین کو بیعت کے لئے جمع فرمایا، تو اسماء رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ ہمارے لئے اپنا ہاتھ آگے کیوں نہیں بڑھاتے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا، البتہ زبانی بیعت لے لیتا ہوں“، ان عورتوں میں اسماء رضی اللہ عنہا کی ایک خالہ بھی تھیں جنہوں نے سونے کے کنگن اور سونے کی انگوٹھیاں پہن رکھی تھیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے خاتون! کیا تم اس بات کو پسند کرتی ہو کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تمہیں آگ کی چنگاریوں کے کنگن اور انگوٹھیان پہنائے؟“ انہوں نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی! میں اس بات سے اللہ کی پناہ میں آتی ہوں، میں نے اپنی خالہ سے کہا: خالہ! اسے اتار کر پھینک دو، چنانچہ انہوں نے وہ چیزیں اتار پھینکیں۔ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کہتی ہیں، واللہ! جب انہوں نے وہ چیزیں اتار پھینکیں تو مجھے نہیں یاد پڑتا کہ کسی نے انہیں ان کی جگہ سے اٹھایا ہو اور نہ ہی ہم میں سے کسی نے اس کی طرف کن اکھیوں سے دیکھا، پھر میں نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی! اگر کوئی عورت زیور سے آراستہ نہیں ہوتی تو وہ اپنے شوہر کی نگاہوں میں بےوقعت ہو جاتی ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم پر اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ تم چاندی کی بالیاں بنا لو اور ان پر موتی لگوا لو اور ان کے سوراخوں میں تھوڑا سا زعفران بھر دو، جس سے وہ سونے کی طرح چمکنے لگے گا۔“[مسند احمد/مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ/حدیث: 27572]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف شهر بن حوشب ، وقوله: "إني لست أصافح النساء" صحيح لغيره
حدیث نمبر: 27573
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، قَالَ: قال ابْنُ جُرَيْجٍ : " إِنَّ مَعْمَرًا شَرِبَ مِنَ الْعِلْمِ بِأَنقَعَ"، قال عبد الله: قَالَ أَبِي: وَمَاتَ مَعْمَرٌ وَلَهُ ثَمَانٍ وَخَمْسُونَ سَنَةً .
عبدالرزاق رحمہ اللہ ابن جریج کا قول نقل کرتے ہیں کہ معمر نے علم کی خالص شراب پی رکھی ہے، امام احمد رحمہ اللہ کے صاحبزادے کہتے ہیں کہ میرے والد نے فرمایا: معمر اٹھاون سال کی عمر میں فوت ہوئے۔ [مسند احمد/مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ/حدیث: 27573]
حكم دارالسلام: خبر صحيح، وهذا اسناد منقطع، عبدالرزاق لم يسمعه من ابن جريج
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”گھوڑوں کی پیشانیوں میں قیامت تک کے لئے خیر باندھ دی گئی ہے، سو جو شخص ان گھوڑوں کو اللہ کی راہ میں ساز و سامان کے طور پر باندھتا ہے اور ثواب کی نیت سے ان پر خرچ کرتا ہے تو ان کا سیر ہونا اور بھوکا رہنا، سیراب ہونا اور پیاسا رہنا اور ان کا بول و براز تک قیامت کے دن اس کے نامہ اعمال میں کامیابی کا سبب ہوگا اور جو شخص ان گھوڑوں کو نمود و نمائش اور اتراہٹ اور تکبر کے اظہار کے لئے باندھتا ہے تو ان کا پیٹ بھرنا“ اور بھوکا رہنا، سیر ہونا اور پیاسا رہنا اور ان کو بول و براز قیامت کے دن اس کے نامہ اعمال میں خسارے کا سبب ہو گا۔ [مسند احمد/مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ/حدیث: 27574]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف شهر بن حوشب
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سورۃ مائدہ مکمل نازل ہوئی تو ان کی اونٹنی ”عضباء“ کی لگام میں نے پکڑی ہوئی تھی اور وحی کے بوجھ سے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اونٹنی کا بازو ٹوٹ جائے گا۔ [مسند احمد/مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ/حدیث: 27575]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف ليث، وشهر بن حوشب
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک مشروب پیش کیا گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو بھی عنایت فرمایا گھومتے گھومتے وہ برتن ایک آدمی تک پہنچا جو روزے سے تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بھی پینے کے لئے فرمایا، کسی نے بتایا یا رسول اللہ! یہ کبھی روزہ نہیں چھوڑتا، ہمیشہ روزہ رکھتا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس شخص کا کوئی روزہ نہیں ہوتا جو ہمیشہ روزہ رکھتا ہے۔“[مسند احمد/مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ/حدیث: 27576]
حكم دارالسلام: مرفوعه صحيح لغيره، وهذا اسناد ضعيف لضعف ليث، وشهر بن حوشب
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو عورت سونے کا ہار پہنتی ہے، قیامت کے دن اس کے گلے میں ویسا ہی آگ کا ہار پہنایا جائے گا اور جو عورت اپنے کانوں میں سونے کی بالیاں پہنتی ہے، اس کے کانوں میں قیامت کے دن ویسی ہی آگ کی بالیاں ڈالی جائیں گی۔“[مسند احمد/مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ/حدیث: 27577]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة محمود بن عمرو، وقد تفرد به
حضرت اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیعت کرنے حاضر ہوئی، جب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میرے ان دو کنگنوں کے اوپر پڑی جو میں نے پہنے ہوئے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسماء! یہ دونوں کنگن اتار دو، کیا تم اس بات سے نہیں ڈرتیں کہ اللہ ان کے بدلے میں تمہیں آگ کے دو کنگن پہنائے، چنانچہ میں نے انہیں اتار دیا اور مجھے یاد نہیں کہ انہیں کس نے لے لیا تھا۔“[مسند احمد/مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ/حدیث: 27578]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف شهر بن حوشب، وجهالة حفص السراج
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کے گھر میں تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خروج دجال سے تین سال قبل آسمان ایک تہائی بارش اور زمین ایک تہائی نباتات روک لے گی، دوسرے سال آسمان دو تہائی بارش اور زمین دو تہائی پیداوار روک لے گی اور تیسرے سال آسمان اپنی مکمل بارش اور زمین اپنی مکمل پیداوار روک لے گی اور ہر موزے اور کھر والا ذی حیات ہلاک ہو جائے گا، اس موقع پر دجال ایک دیہاتی سے کہے گا، یہ بتاؤ کہ اگر میں تمہارے اونٹ زندہ کر دوں ان کے تھن بھرے اور بڑے ہوں اور ان کے کوہان عظیم ہوں تو کیا تم مجھے اپنا رب یقین کر لو گے؟ وہ کہے گا، ہاں! چنانچہ شیاطین اس کے سامنے اونٹوں کی شکل میں آئیں گے اور وہ دجال کی پیروی کرنے لگے گا۔ اسی طری دجال ایک اور آدمی سے کہے گا، یہ بتاؤ کہ اگر میں تمہارے باپ، تمہارے بیٹے اور تمہارے اہل خانہ میں سے ان تمام لوگوں کو جنہیں تم پہچانتے ہو زندہ کر دوں تو کیا تم یقین کر لو گے کہ میں ہی تمہارا رب ہوں، وہ کہے گا ہاں! چنانچہ اس کے سامنے شیاطین ان صورتوں میں آ جائیں گے اور وہ دجال کی پیروی کرنے لگے گا“، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے اور اہل خانہ رونے لگے، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم واپس آئے، ہم اس وقت رو رہے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تم کیوں رو رہے ہو؟“ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ نے دجال کا جو ذکر کیا ہے، واللہ ! میرے گھر میں جو باندی ہے، وہ آٹا گوندھ رہی ہوتی ہے، ابھی وہ اسے گوندھ کر فارغ نہیں ہونے پاتی کہ میرا کلیجہ بھوک کے مارے پارہ پارہ ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے تو اس دن ہم کیا کریں گے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس دن مسلمانوں کے لئے کھانے پینے کے بجائے تکبیر اور تسبیح و تحمید ہی کافی ہو گی، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مت روؤ، اگر میری موجودگی میں دجال نکل آیا تو میں اس سے مقابلہ کروں گا اور اگر میرے بعد اس کا خروج ہوا تو ہر مسلمان پر اللہ میرا نائب ہے۔“[مسند احمد/مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ/حدیث: 27579]
حكم دارالسلام: هذا إسناده ضعيف لضعف شهر ابن حوشب، وقوله: "ان يخرج الدجال وانا حيي، فانا حجيجه" صحيح لغيره
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے، البتہ اس میں یہ اضافہ بھی موجود ہے کہ جو شخص میری مجلس میں حاضر ہو اور میری باتیں سنے، تو تم میں سے حاضرین کو غائبین تک یہ باتیں پہنچا دینی چاہئیں اور یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ صحیح سالم ہیں، وہ کانے نہیں ہیں، جبکہ دجال ایک آنکھ سے کانا ہو گا اور ایک آنکھ پونچھ دی گئی ہو گی اور اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان کافر لکھا ہو گا، جسے مومن ”خواہ وہ لکھنا پڑھنا جانتا ہو یا نہیں“ پڑھ لے گا۔ [مسند احمد/مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ/حدیث: 27580]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف شهر بن حوشب ، و بعضه صحيح لغيره
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو ان کی والدہ رونے چلانے لگیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”تمہارے آنسو تھم کیوں نہیں رہے اور تمہارا غم دور کیوں نہیں ہو رہا جبکہ تمہارا بیٹا وہ پہلا آدمی ہے جسے دیکھ کر اللہ کو ہنسی آئی ہے اور اس کا عرش ہل رہا ہے۔“[مسند احمد/مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ/حدیث: 27581]
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لڑکے کی طرف سے عقیقہ میں دو بکریاں کی جائیں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری۔“[مسند احمد/مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ/حدیث: 27582]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد حسن إن ثبت سماع مجاهد من أسماء بنت يزيد
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت بہت سے مرد اور عورت جمع تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہو سکتا ہے کہ ایک زمانے میں مرد یہ بتانے لگے کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ کیا کرتا ہے اور عورت یہ بتانے لگے کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ کیا کرتی ہے؟“ لوگ اس پر خاموش رہے، تو میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اللہ کی قسم! یہ باتیں تو عورتیں کہتی ہیں اور مرد بیان کرتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لیکن تم ایسا نہ کرو، کیونکہ اس کی مثال ایسے ہے جیسے کوئی شیطان کسی شیطانیہ سے راستے میں ملے اور لوگوں کے سامنے ہی اس سے بدکاری کرنے لگے۔“[مسند احمد/مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ/حدیث: 27583]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف شهر بن حوشب، ولجهالة حفص السراج
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو عورت سونے کا ہار پہنتی ہے، قیامت کے دن اس کے گلے میں ویسا ہی آگ کا ہار پہنایا جائے گا اور جو عورت اپنے کانوں میں سونے کی بالیاں پہنتی ہے، اس کے کانوں میں قیامت کے دن ویسی ہی آگ کی بالیاں ڈالی جائیں گی۔“[مسند احمد/مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ/حدیث: 27584]
حضرت اسماءبنت یزید رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اپنی اولاد کو خفیہ قتل نہ کیا کرو، کیونکہ حالت رضاعت میں بیوی سے قربت کے نتیجے میں دودھ پینے والا بچہ جب بڑا ہوتا ہے تو گھوڑا اسے اپنی پشت سے گرا دیتا ہے (وہ جم کر گھوڑے پر نہیں بیٹھ سکتا)۔ [مسند احمد/مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ/حدیث: 27585]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة مهاجر، وقد انفرد به، ومثله لا يحتمل تفرده ، ثم إنه معارض بحديث صحيح
حماد بن زید نے ایک مرتبہ فرقہ جہمیہ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ لوگ آپس میں یہ باتیں کرتے ہیں کہ آسمان میں کچھ نہیں ہے۔ [مسند احمد/مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ/حدیث: 27586]
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جس وقت وفات ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر ایک یہودی کے پاس ایک وسق جَو کے عوض رہن رکھی ہوئی تھی۔ [مسند احمد/مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ/حدیث: 27587]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره دون قوله: "بوسق من شعير"ر، وهذا إسناد ضعيف لضعف شهر بن حوشب
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے بحوالہ ابوذر رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرتا تھا، جب اپنے کام سے فارغ ہوتا تو مسجد میں آ کر لیٹ جاتا، ایک دن میں لیٹا ہوا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے اور مجھے اپنے مبارک پاؤں سے ہلایا، میں سیدھا ہو کر اٹھ بیٹھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ابوذر! تم اس وقت کیا کرو گے جب تم مدینہ سے نکال دیئے جاؤ گے؟“ عرض کیا: میں مسجد نبوی اور اپنے گھر لوٹ جاؤں گا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اور جب تمہیں یہاں سے بھی نکال دیا جائے گا تو کیا کرو گے؟“ میں نے عرض کیا کہ میں شام چلا جاؤں گا جو ارض ہجرت اور ارض محشر اور ارض انبیاء ہے، میں اس کی رہائش اختیار کر لوں گا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ”اگر تمہیں وہاں سے بھی نکال دیا گیا تو کیا کرو گے؟“ عرض کیا: میں دوبارہ وہاں چلا جاؤں گا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”اگر دوبارہ وہاں سے نکال دیا گیا؟“ میں نے عرض کیا کہ اس وقت میں اپنی تلوار پکڑوں گا اور جو مجھے نکالنے کی کوشش کرے گا اسے اپنی تلوار سے ماروں گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر اپنا دست مبارک میرے کندھے پر رکھا اور تین مرتبہ فرمایا: ”ابوذر! درگزر سے کام لو، وہ تمہیں جہاں لے جائیں وہاں چلے جانا اگرچہ تمہارا حکمران کوئی حبشی غلام ہی ہو، یہاں تک کہ تم اس حال میں مجھ سے آ ملو۔“[مسند احمد/مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ/حدیث: 27588]
حكم دارالسلام: اسناد ضعيف لضعف شهر بن حوشب، وقصة السمع والطاعة صحيحة ثابتة من احاديث اخري، انظر: 21428
حضرت اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا ”جن کا تعلق بنی عبدالاشہل سے ہے“ کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس سے گزرے، ہم کچھ عورتوں کے ساتھ تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سلام کیا اور فرمایا: ”احسان کرنے والوں کی ناشکری سے اپنے آپ کو بچاؤ“، ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! احسان کرنے والوں کی ناشکری سے کیا مراد ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہو سکتا ہے کہ تم میں سے کوئی عورت اپنے ماں باپ کے یہاں طویل عرصے تک رشتے کے انتظار میں بیٹھی رہے، پھر اللہ اسے شوہر عطاء فرما دے اور اس سے اسے مال و دولت بھی عطاء فرما دے اور وہ پھر کسی دن غصے میں آکر یوں کہہ دے کہ میں نے تو تجھ سے کبھی خیر نہیں دیکھی۔“[مسند احمد/مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ/حدیث: 27589]
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف لضعف شهر بن حوشب، وقد توبع
حضرت اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اپنی اولاد کو خفیہ قتل نہ کیا کرو، کیونکہ حالت رضاعت میں بیوی سے قربت کے نتیجے میں دودھ پینے والا بچہ جب بڑا ہوتا ہے تو گھوڑا اسے اپنی پشت سے گرا دیتا ہے (وہ جم کر گھوڑے پر نہیں بیٹھ سکتا)۔ [مسند احمد/مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ/حدیث: 27590]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة مهاجر، وقد انفرد به، ومثله لا يحتمل تفرده، ثم إنه معارض بحديث صحيح
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو تیار کرنے والی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں انہیں پیش کرنے والی میں ہی تھی، میرے ساتھ کچھ اور عورتیں بھی تھیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دودھ کا ایک پیالہ لایا گیا، جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے خود نوش فرمایا پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو وہ پیالہ پکڑا دیا، وہ شرما گئیں، ہم نے ان سے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ واپس نہ لوٹاؤ، بلکہ یہ برتن لے لو، چنانچہ انہوں نے شرماتے ہوئے وہ پیالہ پکڑ لیا اور اس میں سے تھوڑا سا دودھ پی لیا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ مجھے دے دو“، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ نوش کر کے مجھے پکڑا دیا، میں بیٹھ گئی اور پیالے کو اپنے گھٹنے پر رکھ لیا اور اسے گھمانے لگی تاکہ وہ جگہ مل جائے جہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہونٹ لگائے تھے، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ اپنی سہیلیوں کو دے دو“، ہم نے عرض کیا کہ ہمیں اس کی خواہش نہیں ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بھوک اور جھوٹ کو اکٹھا نہ کرو، اب بھی تم باز آؤ گی یا نہیں؟“ میں نے کہا: اماں جان! آئندہ کبھی نہیں کروں گی۔ [مسند احمد/مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ/حدیث: 27591]
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سورۃ مائدہ مکمل نازل ہوئی تو ان کی اونٹنی ”عضباء“ کی لگام میں نے پکڑی ہوئی تھی اور وحی کے بوجھ سے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اونٹنی کا بازو ٹوٹ جائے گا۔ [مسند احمد/مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ/حدیث: 27592]
حكم دارالسلام: حسن بشواهده، وهذا إسناد ضعيف لضعف ليث، وشهر بن حوشب
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص ان گھوڑوں کو اللہ کی راہ میں ساز و سامان کے طور پر باندھتا ہے اور ثواب کی نیت سے ان پر خرچ کرتا ہے تو ان کا سیر ہونا اور بھوکا رہنا، سیراب ہونا اور پیاسا رہنا اور ان کا بول و براز تک قیامت کے دن اس کے نامہ اعمال میں کامیابی کا سبب ہوگا اور جو شخص ان گھوڑوں کو نمود و نمائش اور اتراہٹ اور تکبر کے اظہار کے لئے باندھتا ہے تو ان کا پیٹ بھرنا اور بھوکا رہنا، سیر ہونا اور پیاسا رہنا اور ان کو بول و براز قیامت کے دن اس کے نامہ اعمال میں خسارے کا سبب ہوگا۔“[مسند احمد/مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ/حدیث: 27593]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف شهر بن حوشب
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا۔“[مسند احمد/مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ/حدیث: 27594]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف شهر بن حوشب
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ آیت اس طرح پڑھتے ہوئے سنا ہے: «إِنَّهُ عَمِلَ غَيْرَ صَالِحٍ» ۔ [مسند احمد/مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ/حدیث: 27595]
حكم دارالسلام: حديث حسن بشاهده، وهذا إسناد ضعيف لضعف شهر بن حوشب
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ آیت اس طرح پڑھتے ہوئے سنا ہے: «يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا [سورة الزمر آية 53] وَلَا يُبَالِي , إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ» ۔ [مسند احمد/مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ/حدیث: 27596]
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جھوٹ بولنا کسی صورت صحیح نہیں سوائے تین جگہوں کے، ایک تو وہ آدمی جو اپنی بیوی کو خوش رکھنے کے لئے جھوٹ بولے، دوسرے وہ آدمی جو جنگ میں جھوٹ بولے، تیسرے وہ آدمی جو دو مسلمانوں کے درمیان صلح کرانے کے لئے جھوٹ بولے۔“[مسند احمد/مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ/حدیث: 27597]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف شهر بن حوشب ، واختلف فيه على سفيان الثوري
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو تیار کرنے والی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں انہیں پیش کرنے والی میں ہی تھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے دودھ کا پیالہ پیش کیا: تو ہم نے عرض کیا کہ ہمیں اس کی خواہش نہیں ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بھوک اور جھوٹ کو اکٹھا نہ کرو۔“[مسند احمد/مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ/حدیث: 27598]
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”کیا میں تمہیں تمہارے سب سے بہترین آدمیوں کے متعلق نہ بتاؤں؟“ لوگوں نے عرض کیا: کیوں نہیں یا رسول اللہ! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ لوگ کہ جنہیں دیکھ کر اللہ یاد آ جائے“، پھر فرمایا: ”کیا میں تمہیں تمہارے سب سے بدترین آدمیوں کے متعلق نہ بتاؤں؟ وہ لوگ جو چغلخوری کرتے پھریں، دوستوں میں پھوٹ ڈالتے پھریں، باغی، آدم بیزار اور متعصب لوگ۔“[مسند احمد/مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ/حدیث: 27599]
حكم دارالسلام: حسن بشواهده ، وهذا إسناد ضعيف لضعف شهر بن حوشب، وقد اختلف عليه فيه
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”دجال زمین میں چالیس سال تک رہے گا، اس کا ایک سال ایک مہینے کے برابر، ایک مہینہ ایک جمعہ کے برابر، ایک جمعہ ایک دن کی طرح اور ایک دن چنگاری بھڑکنے کی طرح ہو گا۔“[مسند احمد/مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ/حدیث: 27600]
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”کیا میں تمہیں تمہارے سب سے بہترین آدمیوں کے متعلق نہ بتاؤں؟“ لوگوں نے عرض کیا: کیوں نہیں یا رسول اللہ! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ لوگ کہ جنہیں دیکھ کر اللہ یاد آ جائے“، پھر فرمایا: ”کیا میں تمہیں تمہارے سب سے بدترین آدمیوں کے متعلق نہ بتاؤں؟ وہ لوگ جو چغلخوری کرتے پھریں، دوستوں میں پھوٹ ڈالتے پھریں، باغی، آدم بیزار اور متعصب لوگ۔“[مسند احمد/مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ/حدیث: 27601]
حكم دارالسلام: حسن بشواهده، وهذا إسناد ضعيف لضعف شهر بن حوشب، وقد اختلف عليه فيه
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان خواتین کو بیعت کے لئے جمع فرمایا، تو اسماء رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ ہمارے لئے اپنا ہاتھ آگے کیوں نہیں بڑھاتے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا، البتہ زبانی بیعت لے لیتا ہوں“، ان عورتوں میں اسماء رضی اللہ عنہا کی ایک خالہ بھی تھیں جنہوں نے سونے کے کنگن اور سونے کی انگوٹھیاں پہن رکھی تھیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے خاتون! کیا تم اس بات کو پسند کرتی ہو کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تمہیں آگ کی چنگاریوں کے کنگن اور انگوٹھیان پہنائے؟“ انہوں نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی! میں اس بات سے اللہ کی پناہ میں آتی ہوں، میں نے اپنی خالہ سے کہا: خالہ! اسے اتار کر پھینک دو، چنانچہ انہوں نے وہ چیزیں اتار پھینکیں۔ مجھے نہیں یاد پڑتا کہ کس نے انہیں ان کی جگہ سے اٹھایا ہو اور نہ ہی ہم میں سے کسی نے اس کی طرف کن اکھیوں سے دیکھا، پھر میں نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی! اگر کوئی عورت زیور سے آراستہ نہیں ہوتی تو وہ اپنے شوہر کی نگاہوں میں بےوقعت ہو جاتی ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم پر اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ تم چاندی کی بالیاں بنا لو اور ان پر موتی لگوا لو اور ان کے سوراخوں میں تھوڑا سا زعفران بھر دو، جس سے وہ سونے کی طرح چمکنے لگے گا۔“[مسند احمد/مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ/حدیث: 27602]
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص شراب پیتا ہے، چالیس دن تک اللہ اس سے ناراض رہتا ہے، اگر وہ اس حال میں مر جاتا ہے تو کافر ہو کر مرتا ہے اور اگر توبہ کر لیتا ہے تو اللہ اس کی توبہ قبول فرما لیتا ہے اور اگر دوبارہ شراب پیتا ہے تو اللہ پر حق ہے کہ اسے «طِينَةِ الْخَبَالِ» کا پانی پلائے، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! «طِينَةِ الْخَبَالِ» کیا چیز ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اہل جہنم کی پیپ۔“[مسند احمد/مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ/حدیث: 27603]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره دون قوله: "فإن مات مات كافرا"، وهذا إسناد ضعيف لضعف شهر بن حوشب
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں اپنی خالہ کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی، انہوں نے سونے کے کنگن اور سونے کی انگوٹھیاں پہن رکھی تھیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے خاتون! کیا تم اس بات کو پسند کرتی ہو کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تمہیں آگ کی چنگاریوں کے کنگن اور انگوٹھیان پہنائے؟“ انہوں نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی! میں اس بات سے اللہ کی پناہ میں آتی ہوں، میں نے اپنی خالہ سے کہا: خالہ! اسے اتار کر پھینک دو، چنانچہ انہوں نے وہ چیزیں اتار پھینکیں، مجھے نہیں یاد پڑتا کہ کس نے انہیں ان کی جگہ سے اٹھایا۔ [مسند احمد/مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ/حدیث: 27604]
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو عورت سونے کا ہار پہنتی ہے، قیامت کے دن اس کے گلے میں ویسا ہی آگ کا ہار پہنایا جائے گا اور جو عورت اپنے کانوں میں سونے کی بالیاں پہنتی ہے، اس کے کانوں میں قیامت کے دن ویسی ہی آگ کی بالیاں ڈالی جائیں گی۔“[مسند احمد/مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ/حدیث: 27605]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة محمود بن عمرو، وقد تفرد به
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ آیت اس طرح پڑھتے ہوئے سنا ہے: «إِنَّهُ عَمِلَ غَيْرَ صَالِحٍ» اور اس آیت کو اس طرح پڑھتے ہوئے سنا ہے: «يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا [سورة الزمر آية 53] وَلَا يُبَالِي، إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ» ۔ [مسند احمد/مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ/حدیث: 27606]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف شهر بن حوشب، والشطر الأول حسن
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ قریش پڑھ کر فرمایا: ”ارے قریش کے لوگو! اس گھر کے رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں بھوک کی حالت میں کھانا کھلایا اور خوف کی حالت میں امن عطاء فرمایا۔“[مسند احمد/مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ/حدیث: 27607]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف شهر ابن حوشب و عبيدالله بن أبى زياد
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جھوٹ کسی صورت صحیح نہیں، سوائے تین جگہوں کے، ایک تو وہ آدمی جو اپنی بیوی کو خوش رکھنے کے لئے جھوٹ بولے، دوسرے وہ آدمی جو جنگ میں جھوٹ بولے، تیسرے وہ آدمی جو دو مسلمانوں کے درمیان صلح کرانے کے لئے جھوٹ بولے۔“[مسند احمد/مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ/حدیث: 27608]
حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی عزت کا دفاع کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ پر حق ہے کہ اسے قیامت کے دن جہنم کی آگ سے آزاد کرے۔“[مسند احمد/مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ/حدیث: 27609]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف عبيدالله بن أبى زياد، وشهر بن حوشب
حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی عزت کا دفاع کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ پر حق ہے کہ اسے قیامت کے دن جہنم کی آگ سے آزاد کرے۔“[مسند احمد/مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ/حدیث: 27610]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف عبيدالله بن أبى زياد، وشهر بن حوشب
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو آیت الکرسی اور سورت آل عمران کی پہلی آیت کے متعلق یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ان دونوں آیتوں میں اللہ تعالیٰ کا اسم اعظم موجود ہے۔ [مسند احمد/مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ/حدیث: 27611]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف عبيدالله بن أبى زياد، وشهر بن حوشب
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اللہ کے لئے مسجد بناتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں اس سے کشادہ گھر بنا دیتا ہے۔“[مسند احمد/مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ/حدیث: 27612]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة حال محمود بن عمرو
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ آیت اس طرح پڑھتے ہوئے سنا ہے۔ «إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا وَلا يُبَالِي إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ» ۔ [مسند احمد/مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ/حدیث: 27613]
حضرت اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیعت کرنے کے لئے حاضر ہوئی، جب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میرے ان دو کنگنوں کے اوپر پڑی جو میں نے پہنے ہوئے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم اس کی زکوٰۃ ادا کرتی ہو؟“ ہم نے عرض کیا: نہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم اس بات سے نہیں ڈرتیں کہ اللہ ان کے بدلے میں تمہیں آگ کے دو کنگن پہنائے، اس کی زکوٰۃ ادا کیا کرو۔“[مسند احمد/مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ/حدیث: 27614]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف على بن عاصم، وشهر بن حوشب