موسیٰ جہنی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں فاطمہ بنت علی کی خدمت میں حاضر ہوا، انہوں نے فرمایا کہ مجھے حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا نے بتایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ سے نسبت تھی، البتہ فرق یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔“[مسند احمد/مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ/حدیث: 27467]
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب حضرت جعفر رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے پاس تشریف لا کر فرمایا: ”تین دن تک سوگ کے کپڑے پہننا، پھر جو چاہو کرنا۔“ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔ [مسند احمد/مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ/حدیث: 27468]
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں بیمار ہوئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مرض بڑھتا گیا، حتیٰ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بیہوشی طاری ہو گئی، ازواجِ مطہرات نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ مبارک میں دوا ڈالنے کے لئے باہم مشورہ کیا، چنانچہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ مبارک میں دوا ڈال دی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جب افاقہ ہو گیا، تو پوچھا: ”یہ کیا ہے؟“ ہم نے عرض کیا کہ یہ آپ کی ازواجِ مطہرات کا کام ہے جو یہاں سے آئی ہیں اور ارض حبشہ کی طرف اشارہ کیا، ان میں حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا بھی شامل تھیں، انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہمارا خیال تھا کہ آپ کو ذات الجنت کی بیماری کا عارضہ ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ ایسی بیماری ہے جس میں اللہ تعالیٰ مجھے مبتلا نہیں کرے گا، اس گھر میں کوئی بھی آدمی ایسا نہ رہے جس کے منہ میں دوا نہ ڈالی جائے، سوائے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا یعنی حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے، چنانچہ اس دن حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے منہ میں دوا ڈالی گئی، حالانکہ وہ اس دن روزے سے تھیں، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی تاکید سے اس کا حکم دیا تھا۔ [مسند احمد/مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ/حدیث: 27469]
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ انہوں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! جعفر کے بچوں کو نظر لگ جاتی ہے، کیا میں ان پر دم کر سکتی ہوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں! اگر کوئی چیز تقدیر سے سبقت لے جا سکتی تو وہ نظر بد ہوتی۔“[مسند احمد/مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ/حدیث: 27470]
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف لجهالة حال عروة بن عامر، وعبيد بن رفاعة مختلف فى صحبته
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو تیار کرنے والی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں انہیں پیش کرنے والی میں ہی تھی، میرے ساتھ کچھ اور عورتیں بھی تھیں، واللہ! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہم نے مہمان نوازی کے لئے دودھ کے ایک پیالے کے علاوہ کچھ نہیں پایا، جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے خود نوش فرمایا، پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو وہ پیالہ پکڑا دیا، وہ شرما گئیں، ہم نے ان سے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ واپس نہ لوٹاؤ، بلکہ یہ برتن لے لو، چنانچہ انہوں نے شرماتے ہوئے وہ پیالہ پکڑ لیا اور اس میں سے تھوڑا سا دودھ پی لیا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی سہیلیوں کو دے دو“، ہم نے عرض کیا کہ ہمیں اس کی خواہش نہیں ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بھوک اور جھوٹ کو اکٹھا مت کرو“، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اگر ہم میں سے کوئی عورت کسی چیز کی خواہش رکھتی ہو اور وہ کہہ دے مجھے خواہش نہیں ہے تو کیا اسے جھوٹ میں شمار کیا جائے گا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جھوٹ کو جھوٹ لکھا جاتا ہے اور چھوٹے جھوٹ کو چھوٹا جھوٹ لکھا جاتا ہے۔“[مسند احمد/مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ/حدیث: 27471]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة أبى شداد، ومجاهد لم يسمع من أسماء بنت عميس