حضرت حفصہ سے مروی ہے کہ طلوع صبح صادق کے وقت جب کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت کوئی نہیں آتا تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعتیں پڑھتے تھے اور منادی نماز کے لئے اذان دینے لگتا تھا۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26423]
حضرت حفصہ سے مروی ہے کہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ یہ کیا بات ہے کہ لوگ تو اپنے احرام کو کھول چکے ہیں لیکن آپ اپنے عمرے کے احرام سے نہیں نکلے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دراصل میں نے ہدی کے جانور کے گلے میں قلادہ باندھ لیا تھا اور اپنے سرکے بالوں کو جما لیا تھا اس لئے میں اس وقت تک احرام نہیں کھول سکتا جب تک کہ حج کے احرام سے فارغ نہ ہوجاؤں۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26424]
حضرت ابن عمر سے مروی ہے کہ انہوں نے مدینہ کی کسی گلی میں ایک مرتبہ ابن صائد کو دیکھا تو اسے سخت سست کہا اور اس کے متعلق تلخ جملے کہے، جس پر وہ پھول گیا کہ راستہ بند ہوگیا حضرت ابن عمر نے اسے اپنے پاس موجود لاٹھی سے مارا حتی کہ وہ ٹوٹ گئی حضرت حفصہ نے یہ معلوم ہونے پر ان سے کہا کہ تمہارا اس سے کیا کام ہے؟ تم اسے کیوں بھڑکا رہے ہو؟ کیا تم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے نہیں سنا کہ دجال کو کوئی شخص غصہ دلائے گا اور وہ اسی غصے میں آکرخروج کرے گا۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26425]
حضرت ابن عمر سے مروی ہے کہ میں ابن صائد سے دو مرتبہ ملا ہوں پہلی مرتبہ جب میں اس سے ملا تو اس کے ساتھ اس کے کچھ ساتھی تھے میں نے ان میں سے کسی سے کہا کہ میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ اگر میں تم سے کوئی سوال کروں تو کیا مجھے اس کا صحیح جواب دو گے؟ انہوں نے کہا جی ہاں میں نے کہا کیا تم اسے وہی دجال سمجھتے ہو؟ انہوں نے کہا نہیں میں نے کہا تم غلط بیانی سے کام لے رہے ہو واللہ تم میں سے کسی نے مجھے اس وقت بتایا تھا جب اس کے پاس مال و اولاد کی کمی تھی کہ یہ اس وقت تک نہیں مرے گا جب تک مال واولاد میں تم سب سے زیادہ نہ ہوجائے اور آج ایسا ہی ہے پھر میں اس سے جدا ہوگیا۔ اس کے بعد ایک مرتبہ پھر میری اس سے ملاقات ہوئی تو اس کی آنکھ خراب ہوگئی تھی میں نے اس سے پوچھا کہ تمہاری یہ آنکھ کب سے خراب ہوئی؟ اس نے کہا مجھے معلوم نہیں میں نے کہا کہ تمہارے سر میں ہے اور تم ہی کو پتہ نہیں ہے اس نے کہا اے ابن عمر آپ مجھ سے کیا چاہتے ہیں؟ اگر اللہ چاہے تو آپ کی اس لاٹھی میں بھی آنکھ پیدا کرسکتا ہے اور گدھے جیسی آواز میں اتنی زور سے چیخا کہ اس سے پہلے میں نے کبھی نہ سنا تھا، میرے ساتھی یہ سمجھے کہ میں نے اسے اپنے پاس موجود لاٹھی سے مارا حتی کہ وہ ٹوٹ گئی حالانکہ واللہ مجھے کچھ خبر نہ تھی، حضرت حفصہ نے یہ معلوم ہونے پر ان سے کہا کہ تمہارا اس سے کیا کام ہے تم اسے کیوں بھڑکا رہے ہو؟ کیا تم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے نہیں سنا کہ دجال کو کوئی شخص غصہ دلائے گا اور وہ اسی غصے میں آ کر خروج کردے گا۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26426]
حضرت ابن عمر سے مروی ہے کہ میں نے دو مرتبہ ابن صائد کو دیکھا پھر راوی نے پوری حیث ذکر کی اور کہا حضرت حفصہ نے یہ معلوم ہونے پر ان سے کہا کہ تمہارا اس سے کیا کام؟ تم اسے کیوں بھڑکا رہے ہو؟ کیا تم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے نہیں سنا کہ دجال کو کوئی شخص غصہ دلائے گا اور وہ اسی غصے میں آکرخروج کردے گا۔
حضرت ابن عمر سے مروی ہے کہ میں نے دو مرتبہ ابن صائد کو دیکھا پھر راوی نے پوری حیث ذکر کی اور کہا حضرت حفصہ نے یہ معلوم ہونے پر ان سے کہا کہ تمہارا اس سے کیا کام؟ تم اسے کیوں بھڑکا رہے ہو؟ کیا تم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے نہیں سنا کہ دجال کو کوئی شخص غصہ دلائے گا اور وہ اسی غصے میں آکر خروج کردے گا۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26428]
حضرت حفصہ سے مروی ہے کہ طلوع صبح صادق کے وقت جب کہ مؤذن اذان دے دیتا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز کھڑی ہونے سے پہلے مختصر دو رکعتیں پڑھتے تھے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26429]
حضرت حفصہ سے مروی ہے کہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ یہ کیا بات ہے کہ لوگ تو اپنے احرام کو کھول چکے ہیں لیکن آپ اپنے عمرے کے احرام سے نہیں نکلے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دراصل میں نے ہدی کے جانور کے گلے میں قلادہ باندھ لیا تھا اور اپنے سرکے بالوں کو جمالیا تھا اس لئے میں اس وقت تک احرام نہیں کھول سکتا جب تک کہ حج کے احرام سے فارغ نہ ہوجاؤں۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26432]
حضرت حفصہ سے مروی ہے کہ طلوع صبح صادق کے وقت اذان اور اقامت کے درمیان نبی صلی اللہ علیہ وسلم دو مختصر رکعتیں پڑھتے تھے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26434]
حضرت حفصہ سے مروی ہے کہ حجۃ الوداع کے سال نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات کو احرام کھول لینے کا حکم دیا تو کسی نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ یہ کیا بات ہے کہ لوگ تو اپنے احرام کو کھول چکے ہیں لیکن آپ اپنے عمرے کے احرام سے نہیں نکلے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دراصل میں نے ہدی کے جانور کے گلے میں قلادہ باندھ لیا تھا اور اپنے سرکے بالوں کو جمالیا تھا اس لئے میں اس وقت تک احرام نہیں کھول سکتا جب تک کہ حج کے احرام سے فارغ نہ ہوجاؤں۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26436]
حضرت حفصہ سے مروی ہے کہ حجۃ الوداع کے سال نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات کو احرام کھول لینے کا حکم دیا تو کسی نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ یہ کیا بات ہے کہ لوگ تو اپنے احرام کو کھول چکے ہیں لیکن آپ اپنے عمرے کے احرام سے نہیں نکلے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دراصل میں نے ہدی کے جانور کے گلے میں قلادہ باندھ لیا تھا اور اپنے سر کے بالوں کو جمالیا تھا اس لئے میں اس وقت تک احرام نہیں کھول سکتا جب تک کہ حج کے احرام سے فارغ نہ ہوجاؤں۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26437]
حضرت ابن عمر سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے سوال پوچھا یا رسول اللہ احرام باندھنے کے بعد ہم کون سے جانور قتل کرسکتے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پانچ قسم کے جانوروں کو قتل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے بچھو، چوہے، چیل، کوے اور باؤلے کتے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26439]
حضرت حفصہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مجھے امید ہے کہ ان شاء اللہ غزوہ بدر اور حدیبیہ میں شریک ہونیوالا کوئی آدمی جہنم میں داخل نہ ہوگا میں نے عرض کیا کہ کیا اللہ تعالیٰ نہیں فرماتا کہ تم میں سے ہر شخص اس میں وارد ہوگا تو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ آیت پڑھتے ہوئے سنا پھر ہم متقی لوگوں کو نجات دیدیں گے اور ظالموں کو اس میں گھٹنوں کے بل پڑا رہنے کے لئے چھوڑ دیں گے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26440]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لتدليس الأعمش، وقد اختلف فيه على الأعمش
حضرت حفصہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی جائے نماز پر بیٹھ کر نماز پڑھتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا لیکن اپنے مرض الوفات سے ایک دو سال قبل آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جائے نماز پر بیٹھ کر نماز پڑھنے لگے تھے اور اس میں جس سورت کی تلاوت فرماتے تھے اسے خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے تھے حتی کہ وہ خوب طویل ہوجاتی۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26441]
حضرت حفصہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی جائے نماز پر بیٹھ کر نماز پڑھتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا لیکن اپنے مرض الوفات سے ایک دو سال قبل آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جائے نماز پر بیٹھ کر نماز پڑھنے لگے تھے اور اس میں جس سورت کی تلاوت فرماتے تھے اسے خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے تھے حتی کہ وہ خوب طویل ہوجاتی۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26442]
حضرت حفصہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی جائے نماز پر بیٹھ کر نماز پڑھتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا لیکن اپنے مرض الوفات سے ایک دو سال قبل آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جائے نماز پر بیٹھ کر نماز پڑھنے لگے تھے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26443]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف على وهم فى تسمية أحد رواته، ابن جريج مدلس وقد عنعن، ووهم فى قوله: عن عطاء بن يزيد، إنما هو السائب بن يزيد
حضرت حفصہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اس بیت اللہ پر حملے کے ارادے سے ایک لشکر ضرور روانہ ہوگا جب وہ لوگ بیداء نامی جگہ پر پہنچیں گے تو ان کے لشکر کا درمیانی حصہ زمین میں دھنس جائے گا اور ان کے اگلے اور پچھلے حصے کے لوگ ایک دوسرے کو پکارتے رہ جائیں گے اور ان میں سے صرف ایک آدمی بچے کا جو ان کے متعلق لوگوں کو خبر دے گا ایک آدمی نے کہا کہ یقینا اسی طرح ہوگا واللہ حضرت حفصہ کی طرف میں نے جھوٹی نسبت کی ہے اور نہ ہی حضرت حفصہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھا ہے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26444]
حضرت حفصہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے تو میرے یہاں شفاء نامی ایک خاتون موجود تھیں جو پہلو کی پھنسیوں کا جھاڑ پھونک سے علاج کرتی تھیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ یہ طریقہ حفصہ کو بھی سکھا دو۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26449]
حكم دارالسلام: رجاله ثقات، وفي سماع ابي بكر بن سليمان من حفصة نظر
حضرت حفصہ سے مروی ہے کہ قریش کی شفاء نامی ایک خاتون موجود تھیں جو پہلو کی پھنسیوں کا جھاڑ پھونک سے علاج کرتی تھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ یہ طریقہ حفصہ کو بھی سکھا دو۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26450]
حكم دارالسلام: رجاله ثقات، وفي سماع ابي بكر بن سليمان من حفصة نظر
ابن ابی ملیکہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی زوجہ محترمہ میرے یقین کے مطابق حضرت حفصہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت کے متعلق کسی نے پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ تم اس طرح پڑھنے کی طاقت نہیں رکھتے، پھر انہوں نے سورت فاتحہ کی پہلی تین آیات کو توڑ توڑ کر پڑھ کر (ہر آیت پر وقف کر کے) دکھایا۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26451]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وقد اختلف فى هذا الإسناد على ابن أبى مليكة
حضرت حفصہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی ایسی عورت پر جو اللہ پر اور یوم آخرت پر (یا اللہ اور اس کے رسول پر) ایمان رکھتی ہو اپنے شوہر کے علاوہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ منانا جائز نہیں ہے (البتہ شوہر پر وہ چار مہینے دس دن سوگ کرے گی)[مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26452]
حضرت حفصہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی ایسی عورت پر جو اللہ پر اور یوم آخرت پر (یا اللہ اور اس کے رسول پر) ایمان رکھتی ہو اپنے شوہر کے علاوہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ منانا جائز نہیں ہے البتہ شوہر پر وہ چار مہینے دس دن سوگ کرے گی۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26453]
حضرت حفصہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی ایسی عورت پر جو اللہ پر اور یوم آخرت پر (یا اللہ اور اس کے رسول پر) ایمان رکھتی ہو اپنے شوہر کے علاوہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ منانا جائز نہیں ہے (البتہ شوہر پر وہ چار مہینے دس دن سوگ کرے گی)[مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26454]
حضرت حفصہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی ایسی عورت پر جو اللہ پر اور یوم آخرت پر (یا اللہ اور اس کے رسول پر) ایمان رکھتی ہو اپنے شوہر کے علاوہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ منانا جائز نہیں ہے (البتہ شوہر پر وہ چار مہینے دس دن سوگ کرے گی)[مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26455]
حضرت حفصہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی ایسی عورت پر جو اللہ پر اور یوم آخرت پر (یا اللہ اور اس کے رسول پر) ایمان رکھتی ہو اپنے شوہر کے علاوہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ منانا جائز نہیں ہے (البتہ شوہر پر وہ چار مہینے دس دن سوگ کرے گی)[مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26456]
حضرت حفصہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص کا روزہ فجر کے وقت کے ساتھ جمع نہ ہوا تو اس کا روزہ نہیں ہوا۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26457]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف ابن لهيعة، وقد سمع منه الحسن بعد احتراق كتبه ، ثم إنه اختلف عليه
حضرت حفصہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اس بیت اللہ پر حملے کے ارادے سے مشرق سے ایک لشکر ضرور روانہ ہوگا جب وہ لوگ بیداء نامی جگہ پر پہنچیں گے تو ان کے لشکرکا درمیانی حصہ زمین میں دھنس جائے گا اور ان کے اگلے اور پچھلے حصے کے لوگ ایک دوسرے کو پکارتے رہ جائیں گے اور ان میں سے صرف ایک آدمی بچے کا جو ان کے متعلق لوگوں کو خبردے گا۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ اس آدمی کا کیا بنے گا جو اس لشکر میں زبردستی شامل کرلیا گیا ہوگا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ آفت تو سب پر آئے گی البتہ اللہ تعالیٰ ہر شخص کو اس کی نیت پر اٹھائے گا۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26458]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف سلمة وعنعنة ابن إسحاق وجهالة عبدالرحمن بن موسي
حضرت حفصہ سے مروی ہے کہ چار چیزیں ایسی ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ترک نہیں فرماتے تھے دس محرم کا روزہ عشرہ ذی الحجہ کے روزے ہر مہینے میں تین روزے اور نماز فجر سے پہلے دو رکعتیں۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26459]
حكم دارالسلام: حديث ضعيف دون قوله: و الركعتين قبل الغداة، فصحيح، وفي هذا الإسناد أبو إسحاق الأشجعي، وهو مجهول
حضرت حفصہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر مہینے میں تین دن روہ رکھتے تھے جمعرات اور اگلے ہفتے میں پیر کے دن۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26460]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة حال سواء الخزاعي وانقطاع بين عاصم وسواء الخزاعي، وعاصم بن أبى النجود تكلموا فى حفظه، وقد اضطرب فى هذا الإسناد
حضرت حفصہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے بستر پر تشریف لاتے تو دائیں ہاتھ کو دائیں رخسار کے نیچے رکھ کرلیٹ جاتے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ اپنا داہنا ہاتھ کھانے پینے وضو کرنے کپڑے پہننے اور لینے دینے میں استعمال فرماتے تھے اور اس کے علاوہ مواقع کے لئے بائیں ہاتھ کو استعمال فرماتے تھے اور پیر اور جمعرات کے دن کا روزہ رکھتے تھے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26461]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لاضطراب عاصم فى إسناده
حضرت حفصہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے بستر پر تشریف لاتے تو دائیں ہاتھ کو دائیں رخسار کے نیچے رکھ کرلیٹ جاتے پھر یہ دعا پڑھتے کہ پروردگار مجھے اس دن کے عذاب سے بچانا جس دن تو اپنے بندوں کو جمع فرمائے گا۔ تین مرتبہ یہ دعاء فرماتے تھے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26462]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة حال سواء الخزاعي وانقطاع بين عاصم و سواء الخزاعي، وعاصم بن أبى النجود تكلموا فى حفظه، وقد اضطرب فى هذا الإسناد
حضرت حفصہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر مہینے میں تین دن روزہ رکھتے تھے پیرجمعرات اور اگلے ہفتے میں پیر کے دن۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26463]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة حال سواء الخزاعي وانقطاع بين عاصم و سواء الخزاعي، وعاصم بن أبى النجود تكلموا فى حفظه، وقد اضطرب فى هذا الإسناد
حضرت حفصہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے بستر پر تشریف لاتے تو دائیں ہاتھ لیٹ جاتے پھر یہ دعا پڑھتے کہ پروردگار مجھے اس دن کے عذاب سے بچانا جس دن تو اپنے بندوں کو جمع فرمائے گا۔ تین مرتبہ یہ دعاء فرماتے تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ اپنا داہنا ہاتھ کھانے پینے وضو کرنے کپڑے پہننے اور لینے دینے میں استعمال فرماتے تھے اور اس کے علاوہ مواقع کے لئے بائیں ہاتھ کو استعمال فرماتے تھے اور ہر مہینے میں تین دن روزہ رکھتے تھے پیرجمعرات اور اگلے ہفتے میں پیر کے دن۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26464]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره دون قوله: كان يصوم ثلاثة من كل شهر .... الجمعة الأخرى وهذا إسناده ضعيف لجهالة حال سواء الخزاعي وانقطاع بين عاصم و سواء الخزاعي، وعاصم تكلموا فى حفظه، وقد اضطرب فى هذا الإسناد
حضرت حفصہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے بستر پر تشریف لاتے تو دائیں ہاتھ کو دائیں رخسار کے نیچے رکھ کرلیٹ جاتے پھر یہ دعا پڑھتے کہ پروردگار مجھے اس دن کے عذاب سے بچا نا جس دن تو اپنے بندوں کو جمع فرمائے گا۔ تین مرتبہ یہ دعاء فرماتے تھے۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ اپنا داہنا ہاتھ کھانے پینے میں استعمال فرماتے تھے اور اس کے علاوہ مواقع کے لئے بائیں ہاتھ کو استعمال فرماتے تھے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26465]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة حال سواء الخزاعي وانقطاع بين عاصم و سواء الخزاعي، وعاصم تكلموا فى حفظه، وقد اضطرب فى هذا الإسناد
حضرت حفصہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کپڑے سمیٹ کر اپنی رانوں پر ڈال کربیٹھے ہوئے تھے کہ حضرت صدیق اکبر آئے اور اجازت چاہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دیدی اور خود اسی کیفیت پر بیٹھے رہے، پھر حضرت عمر پھر حضرت علی اور دیگر صحابہ کرام آتے گئے لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی کیفیت پر بیٹھے رہے تھوڑی دیر بعد حضرت عثمان نے آ کر اجازت چاہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دی اور اپنی ٹانگوں کو کپڑے سے ڈھانپ لیا کچھ دیرتک وہ لوگ بیٹھے باتیں کرتے رہے پھر واپس چلے گئے ان کے جانے کے بعد میں نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ کے پاس ابوبکر عمر علی اور دیگر صحابہ آئے لیکن آپ اسی کیفیت پر بیٹھے رہے اور جب حضرت عثمان آئے تو آپ نے اپنی ٹانگوں کو کپڑے سے ڈھانپ لیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں اس شخص سے حیاء نہ کروں جس سے فرشتے حیاء کرتے ہیں۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26466]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة حال عبدالله بن أبى سعيد، وأبو خالد مجهول لكنه توبع
حضرت حفصہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کپڑے سمیٹ کر اپنی رانوں پر ڈال کربیٹھے ہوئے تھے کہ حضرت صدیق اکبر آئے اور اجازت چاہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دیدی اور خود اسی کیفیت پر بیٹھے رہے، پھر حضرت عمر پھر حضرت علی اور دیگر صحابہ کرام آتے گئے لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی کیفیت پر بیٹھے رہے تھوڑی دیر بعد حضرت عثمان نے آ کر اجازت چاہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دی اور اپنی ٹانگوں کو کپڑے سے ڈھانپ لیا کچھ دیرتک وہ لوگ بیٹھے باتیں کرتے رہے پھر واپس چلے گئے ان کے جانے کے بعد میں نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ کے پاس ابوبکر عمر علی اور دیگر صحابہ آئے لیکن آپ اسی کیفیت پر بیٹھے رہے اور جب حضرت عثمان آئے تو آپ نے اپنی ٹانگوں کو کپڑے سے ڈھانپ لیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں اس شخص سے حیاء نہ کروں جس سے فرشتے حیاء کرتے ہیں۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26467]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة حال عبدالله بن أبى سعيد