ابوسلمہ کہتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہم سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بیان کرتے تھے کہ جمعہ میں ایک ساعت آتی ہے۔۔۔۔۔۔ پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی اور کہا کہ میں نے سوچا واللہ اگر میں حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو ان سے یہ سوال ضرور پوچھوں گا چناچہ میں وہاں سے نکلا اور حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کے یہاں حاضر ہوا اور ان سے اس کے متعلق پوچھا انہوں نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جمعہ کے دن حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا اس دن انہیں زمین پر اتارا گیا اسی دن ان کی روح قبض ہوئی اسی دن قیامت قائم ہوگی لہٰذا یہ آخری ساعت ہوئی میں نے عرض کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ ساعت نماز کے وقت ہوتی ہے اور عصر کے بعد نماز کا وقت نہیں ہوتا؟ انہوں نے فرمایا کیا تمہیں یہ بات معلوم نہیں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نماز کا انتظار کرنے والا نماز میں ہی شمار ہوتا ہے؟ میں نے عرض کیا کیوں نہیں واللہ وہی ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 23779]
حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اس جگہ یعنی کداء سے لے کر احد تک کی جگہ " حرم " ہے جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حرم قرار دیا ہے لہٰذا میں یہاں کوئی درخت کاٹ سکتا ہوں اور نہ کسی پرندے کو مار سکتا ہوں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 23780]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة عبيدالله بن خنيس، وفضيل بن سليمان ضعيف يعتبر به
حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں میں نے کہا کہ ہم کتاب اللہ میں یہ پاتے ہیں کہ جمعہ کے دن ایک گھڑی ایسی آتی ہے کہ اگر وہ بندہ مسلم کو مل جائے اور وہ نماز پڑھ رہا ہو تو وہ اللہ سے جو سوال بھی کرے گا اسے وہ ضرور عطا فرمائے گا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ سے فرمایا کہ وہ ساعت بہت مختصر ہوتی ہے میں نے عرض کیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا۔ ابوسلمہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ وہ ساعت کون سی ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ دن کی آخری ساعت میں نے عرض کیا کہ کیا وہ نماز کی ساعت نہیں ہوتی؟ انہوں نے فرمایا کیوں نہیں بندہ مسلم جب نماز پڑھ کر اسی جگہ پر بیٹھ کر اگلی نماز کا انتظار کرتا ہے تو وہ نماز ہی میں شمارہوتا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 23781]
حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو میرا نام عبداللہ بن سلام نہیں تھا میرا نام عبداللہ بن سلام تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 23782]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة ابن أخي عبدالله بن سلام
حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو لوگ جوق در جوق ان کی خدمت میں حاضر ہونے لگے میں بھی ان میں شامل ہوگیا میں نے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روئے انور کو دیکھا تو میں سمجھ گیا کہ یہ کسی جھوٹے آدمی کا چہرہ نہیں ہوسکتا اور وہ سب سے پہلا کلام جو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا وہ یہ تھا کہ سلام کو پھیلاؤ، صلہ رحمی کرو اور جس وقت لوگ سو رہے ہوں تم نماز پڑھو اس طرح سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہوجاؤ۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 23785]
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں کوہ طور کی طرف روانہ ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر انہوں نے مکمل حدیث ذکر کی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد میری ملاقات حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے ہوئی تو میں نے انہیں کعب کے ساتھ اپنی نشست کے متعلق بتایا اور جمعہ کے دن کے حوالے سے اپنی بیان کردہ حدیث بھی بتائی اور کہا کہ کعب کہنے لگے ایسا سال بھر میں صرف ایک مرتبہ ہوتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے فرمایا کعب سے غلطی ہوئی ایسا ہر جمعہ میں ہوتا ہے حضرت ابن سلام رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں عبداللہ بن سلام کی جان ہے میں وہ گھڑی جانتا ہوں میں نے ان سے کہا کہ اے عبداللہ! مجھے بھی اس کے متعلق بتا دیجئے انہوں نے فرمایا وہ جمعہ کے دن کی آخری ساعت ہوتی ہے میں نے کہا کہ دوران نماز تو وہ کسی شخص کو نہیں مل سکتی (کیونکہ اس وقت ممنوع ہوتے ہیں) انہوں نے فرمایا کیا آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص نماز کا انتظار کرتا رہتا ہے وہ نماز پڑھنے تک نماز ہی میں شمار ہوتا ہے؟ میں نے کہا کیوں نہیں، انہوں نے فرمایا پھر وہ یہی ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 23786]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لعنعنة ابن إسحاق، وقد توبع
قیس بن عباد کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں مسجد میں تھا کہ ایک آدمی آیا جس کے چہرے پر خشوع کے آثار واضح تھے اس نے مختصر طور پر دو رکعتیں پڑھیں لوگ کہنے لگے کہ یہ شخص اہل جنت میں سے ہے جب وہ چلا گیا تو میں بھی اس کے پیچھے روانہ ہوگیا حتیٰ کہ وہ آدمی اپنے گھر میں داخل ہوگیا میں بھی اس کے ساتھ اس کے گھر میں چلا گیا اور اس سے باتیں کرتا رہا جب وہ مجھ سے مانوس ہوگیا تو میں نے اس سے کہا کہ جب آپ مسجد میں داخل ہوئے تھے تو لوگوں نے آپ کے متعلق اس اس طرح کہا تھا اس نے کہا سبحان اللہ! انسان کو ایسی بات نہیں کہنی چاہئے جو وہ جانتا نہ ہو اور میں تمہیں اس کی وجہ بتاتا ہوں۔
میں نے عہد نبوت میں ایک خواب دیکھا تھا جو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیان کردیا اس خواب میں میں نے دیکھا کہ میں ایک سرسبز و شاداب باغ میں ہوں جس کے درمیان میں لوہے کا ایک ستون ہے جس کا نچلا سرا زمین میں ہے اور اوپر والا سرا آسمان میں ہے اور اس کے اوپر ایک رسی ہے مجھے کسی نے کہا کہ اس پر چڑھ جاؤ میں نے کہا کہ اب چڑھو میں اس پر چڑھنے لگا حتیٰ کہ اس رسی کو پکڑ لیا اس نے مجھ سے کہا کہ اس رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھنا میں جب بیدار ہوا تو یوں محسوس ہوا کہ وہ رسی اب تک میرے ہاتھ میں ہے پھر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ خواب بیان کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ باغ اسلام کا تھا ستون اسلام کا تھا اور وہ رسی مضبوط رسی تھی جس کا مطلب یہ ہے کہ تم مسلمان ہو اور موت تک اس پر قائم رہو گے قیس کہتے ہیں کہ پھر معلوم ہوا کہ وہ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ تھے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 23787]
حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ مذاکرہ کر رہے تھے کہ تم میں سے کون آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ سوال کرے گا کہ اللہ کی نظروں میں سب سے پسندیدہ عمل کون سا ہے؟ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہیبت کی وجہ سے ہم میں سے کوئی کھڑا نہ ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قاصد بھیج کر ایک ایک کر کے ہم سب کو اپنے پاس جمع کرلیا اور ہمارے سامنے سورت صف مکمل تلاوت فرمائی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 23788]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح من حديث يحيي بن أبى كثير عن أبى سلمة بن عبدالرحمن، وأما رواية يحيى بن أبى كثير عن عطاء ففيها انقطاع
حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ مذاکرہ کر رہے تھے کہ تم میں سے کون آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ سوال کرے گا کہ اللہ کی نظروں میں سب سے پسندیدہ عمل کون سا ہے؟ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہیبت کی وجہ سے ہم میں سے کوئی کھڑا نہ ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قاصد بھیج کر ایک ایک کر کے ہم سب کو اپنے پاس جمع کرلیا اور ہمارے سامنے سورت صف مکمل تلاوت فرمائی تلاوت کا یہ سلسلہ تمام راویوں نے اپنے شاگردوں تک جاری رکھا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 23789]
قیس بن عباد کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں مسجد میں تھا کہ ایک آدمی آیا جس کے چہرے پر خشوع کے آثار واضح تھے اس نے مختصر طور پر دو رکعتیں پڑھیں لوگ کہنے لگے کہ یہ شخص اہل جنت میں سے ہے جب وہ چلا گیا تو میں بھی اس کے پیچھے روانہ ہوگیا حتیٰ کہ وہ آدمی اپنے گھر میں داخل ہوگیا میں بھی اس کے ساتھ اس کے گھر میں چلا گیا اور اس سے باتیں کرتا رہا جب وہ مجھ سے مانوس ہوگیا تو میں نے اس سے کہا کہ جب آپ مسجد میں داخل ہوئے تھے تو لوگوں نے آپ کے متعلق اس اس طرح کہا تھا اس نے کہا سبحان اللہ! انسان کو ایسی بات نہیں کہنی چاہئے جو وہ جانتا نہ ہو اور میں تمہیں اس کی وجہ بتاتا ہوں۔
میں نے عہد نبوت میں ایک خواب دیکھا تھا جو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیان کردیا اس خواب میں میں نے دیکھا کہ میں ایک سرسبز و شاداب باغ میں ہوں جس کے درمیان میں لوہے کا ایک ستون ہے جس کا نچلا سرا زمین میں ہے اور اوپر والا سرا آسمان میں ہے اور اس کے اوپر ایک رسی ہے مجھے کسی نے کہا کہ اس پر چڑھ جاؤ میں نے کہا کہ اب چڑھو میں اس پر چڑھنے لگا حتیٰ کہ اس رسی کو پکڑ لیا اس نے مجھ سے کہا کہ اس رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھنا میں جب بیدار ہوا تو یوں محسوس ہوا کہ وہ رسی اب تک میرے ہاتھ میں ہے پھر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ خواب بیان کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ باغ اسلام کا تھا ستون اسلام کا تھا اور وہ رسی مضبوط رسی تھی جس کا مطلب یہ ہے کہ تم مسلمان ہو اور موت تک اس پر قائم رہو گے قیس کہتے ہیں کہ پھر معلوم ہوا کہ وہ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ تھے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 23790]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 3813، م: 2484، وهذا إسناد حسن
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں کوہ طور کی طرف روانہ ہوا راستے میں میری ملاقات کعب احبار (رح) سے ہوگئی میں ان کے ساتھ بیٹھ گیا انہوں نے مجھے تورات کی باتیں اور میں نے انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سنانا شروع کردیں اسی دوران میں نے ان سے یہ حدیث بھی بیان کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے سب سے بہترین دن جس میں سورج طلوع ہوتا ہے وہ جمعہ کا دن ہے جس میں حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا گیا اسی دن انہیں جنت سے اتارا گیا اسی دن ان کی توبہ قبول ہوئی اسی دن وہ فوت ہوئے اور اسی دن قیامت قائم ہوگی اور زمین پر چلنے والا ہر جانور جمعہ کے دن طلوع آفتاب کے وقت خوفزدہ ہوجاتا ہے کہ کہیں آج ہی قیامت قائم نہ ہوجائے سوائے جن و انس کے اور اس دن میں ایک گھڑی ایسی بھی آتی ہے جو اگر کسی نماز پڑھتے ہوئے بندہ مسلم کو مل جائے اور وہ اس میں اللہ سے کچھ بھی مانگ لے اللہ اسے وہ ضرورعطاء فرماتا ہے۔
کعب (رح) کہنے لگے کہ یہ ہر سال میں مرتبہ ہوتا ہے میں نے کہا کہ نہیں ہر جمعہ میں ہوتا ہے اس پر کعب نے تورات کو کھول کر پڑھا پھر کہنے لگے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد میری ملاقات حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے ہوئی تو میں نے انہیں کعب کے ساتھ اپنی اس نشست کے متعلق بتایا اور جمعہ کے دن کے حوالے سے اپنی بیان کردہ حدیث بھی بتائی اور کہا کہ کعب کہنے لگے ایسا سال بھر میں ایک مرتبہ ہوتا ہے حضرت عبداللہ بن سلام سے ہوئی میں نے کہا کہ پھر کعب نے تورات پڑھ کر کہا کہ نہیں ایسا ہر جمعہ میں ہوتا ہے حضرت ابن سلام رضی اللہ عنہ نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ وہ گھڑی کون سی ہے میں نے کہا نہیں میں تو ہلاک ہوگیا آپ مجھے بتا دیجئے انہوں نے فرمایا وہ عصر اور مغرب کے درمیان ہوتی ہے میں نے کہا یہ کیسے ہوسکتا ہے جبکہ اس وقت کوئی نماز نہیں ہوتی؟ انہوں نے فرمایا کیا آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص نماز کا انتظار کرتا رہتا ہے وہ نماز پڑھنے تک نماز ہی میں شمار ہوتا ہے؟ میں نے کہا کیوں نہیں، انہوں نے فرمایا پھر وہ یہی ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 23791]