حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہلا دینے والے چیز آگئی اس کے پیچھے پیچھے دوسری بھی آنے والی ہے موت اپنی تمام تر سختیوں کے ساتھ آگئی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 21241]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، عبدالله بن محمد ضعيف عند التفرد
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ! یہ بتائیے کہ اگر میں اپنی ساری دعائیں آپ پر درود پڑھنے کے لئے وقف کر دوں تو کیا حکم ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس صورت میں اللہ تعالیٰ تمہاری دنیا و آخرت کے ہر کام میں تمہاری کفایت فرمائے گا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 21242]
حكم دارالسلام: حديث حسن، عبدالله بن محمد ضعيف عند التفرد، وهو حسن الحديث فى المتابعات والشواهد، وهذا منها
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا انبیاء کرام (علیہم السلام) میں میری مثال اس شخص کی سی ہے جس نے ایک خوبصورت اور مکمل گھر تعمیر کیا اور اس میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی لوگ اس عمارت کے گرد گھومتے تعجب کرتے اور کہتے کہ اگر اس اینٹ کی جگہ بھی مکمل ہوجاتی (تو یہ عمارت مکمل ہوجاتی) انبیاء کرام (علیہم السلام) میں میں اس اینٹ کی طرح ہوں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 21243]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد حسن فى الشواهد من أجل عبدالله بن محمد
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا انبیاء کرام (علیہم السلام) میں میری مثال اس شخص کی سی ہے جس نے ایک خوبصورت اور مکمل گھر تعمیر کیا اور اس میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی لوگ اس عمارت کے گرد گھومتے تعجب کرتے اور کہتے کہ اگر اس اینٹ کی جگہ بھی مکمل ہوجاتی (تو یہ عمارت مکمل ہوجاتی) انبیاء کرام (علیہم السلام) میں میں اس اینٹ کی طرح ہوں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 21244]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد حسن فى الشواهد لأجل سعيد بن سلمة وعبدالله بن محمد
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا قیامت کے دن میں تمام انبیاء کرام (علیہم السلام) کا امام وخطیب اور صاحب شفاعت ہوں گا اور یہ بات میں کسی فخر کے طور پر نہیں کہہ رہا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 21245]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد حسن فى المتابعات والشواهد من أجل عبدالله بن محمد
اور میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں انصار ہی کا ایک فرد ہوتا اور اگر لوگ ایک راستے میں چلیں تو میں انصار کے ساتھ ان کے راستے پر چلوں گا۔
حدیث نمبر (٢١٥٦٥) اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 21247]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد حسن فى المتابعات والشواهد من أجل عبدالله بن محمد
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جس وقت مسجد نبوی کی چھت انگوروں کی بیل سے بنی ہوئی تھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک تنے کے قریب نماز پڑھتے تھے اور اسی تنے سے ٹیک لگا کر خطبہ ارشاد فرماتے تھے ایک دن ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا آپ اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ ہم آپ کے لئے کوئی ایسی چیز بنادیں جس پر آپ جمعے کے دن کھڑے ہو سکیں تاکہ لوگ آپ کو دیکھ سکیں اور آپ کے خطبے کی آواز بھی ان تک پہنچ جایا کرے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی۔ چنانچہ انہوں نے ایک منبر تین سیڑھیوں پر مشتمل بنا دیاجب منبر بن کر تیار ہوگیا اور اس جگہ پر لا کر اسے رکھ دیا گیا جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے رکھوایا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف آوری کے ارادے سے اس تنے کے آگے سے گذرے تو وہ تنا اتنا رویا کہ چٹخ گیا اور اندر سے پھٹ گیا یہ دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم واپس آئے اور اس پر اپنا ہاتھ پھیرا یہاں تک کہ وہ پرسکون ہوگیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لے آئے البتہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز پڑھتے تھے تو اس کے قریب ہی پڑھتے تھے اور جب مسجد کو شہید کر کے اس کی عمارت میں تبدیلیاں کی گئیں تو اس تنے کو حضرت ابی بن کعب اپنے ساتھ لے گئے اور وہ ان کے پاس ہی رہا یہاں تک کہ وہ پرانا ہوگیا اور اسے دیمک لگ گئی جس سے وہ بھرا بھرا ہوگیا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 21248]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره دون قصة أخذ أبى بن كعب اللجذع، فهي ضعيفة لأجل عبدالله بن محمد
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا قیامت کے دن میں تمام انبیاء کرام (علیہم السلام) کا امام وخطیب اور صاحب شفاعت ہوں گا اور یہ بات میں کسی فخر کے طور پر نہیں کہہ رہا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 21249]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف من أجل شريك، لكنه توبع، عبدالله بن محمد حسن فى المتابعات والشواهد
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم لوگ نماز ظہر یا عصر میں صف بستہ کھڑے ہوئے تھے تو ایسا محسوس ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی چیز کو پکڑ رہے ہیں پھر وہ پیچھے ہٹنے لگے تو لوگ بھی پیچھے ہوگئے نماز سے فارغ ہو کر حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ آج تو آپ نے ایسے کیا ہے کہ اس سے پہلے کبھی نہیں کیا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے سامنے جنت کو اپنی تمام تر رونقوں کے ساتھ پیش کیا گیا میں نے انگوروں کا ایک گچھا توڑنا چاہا تاکہ تمہیں دے دوں لیکن پھر کوئی چیز درمیان میں حائل ہوگئی اگر وہ میں تمہارے پاس لے آتا اور سارے آسمان و زمین والے اسے کھاتے تب بھی اس میں کوئی کمی نہ ہوتی، پھر میرے سامنے جہنم کو پیش کیا گیا جب میں نے اس کی بھڑک کو محسوس کیا تو پیچھے ہٹ گیا اور میں نے اس میں اکثریت عورتوں کی دیکھی ہے جنہیں اگر کوئی راز بتایا جائے تو اسے افشاء کردیتی ہیں کچھ مانگا جائے تو بخل سے کام لیتی ہیں خود کسی سے مانگیں تو انتہائی اصرار کرتی ہیں (مل جائے تو شکر نہیں کرتیں) میں نے وہاں لحی بن عمرو کو بھی دیکھا جو جہنم میں اپنی انتڑیاں کھینچ رہا تھا اور میں نے اس کے سب سے زیادہ مشابہہ معبد بن اکثم کعبی کو دیکھا ہے اس پر معبد کہنے لگے یا رسول اللہ! اس کی مشابہت سے مجھے کوئی نقصان پہنچنے کا اندیشہ تو نہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں تم مسلمان ہو اور وہ کافر تھا اور وہ پہلا شخص تھا جس نے اہل عرب کو بت پرستی پر جمع کیا تھا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 21250]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لتفرد عبدالله بن محمد به بهذه السياقة، وهو من مسند جابر بن عبدالله
حدیث نمبر: 21251
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی حضرت ابی رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 21251]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لتفرد عبدالله بن محمد بسياقته
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جس وقت مسجد نبوی کی چھت انگوروں کی بیل سے بنی ہوئی تھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک تنے کے قریب نماز پڑھتے تھے اور اسی تنے سے ٹیک لگا کر خطبہ ارشاد فرماتے تھے ایک دن ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا آپ اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ ہم آپ کے لئے کوئی ایسی چیز بنادیں جس پر آپ جمعے کے دن کھڑے ہو سکیں تاکہ لوگ آپ کو دیکھ سکیں اور آپ کے خطبے کی آواز بھی ان تک پہنچ جایا کرے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی۔ چنانچہ انہوں نے ایک منبر تین سیڑھیوں پر مشتمل بنا دیاجب منبر بن کر تیار ہوگیا اور اس جگہ پر لا کر اسے رکھ دیا گیا جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے رکھوایا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف آوری کے ارادے سے اس تنے کے آگے سے گذرے تو وہ تنا اتنا رویا کہ چٹخ گیا اور اندر سے پھٹ گیا یہ دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم واپس آئے اور اس پر اپنا ہاتھ پھیرا یہاں تک کہ وہ پرسکون ہوگیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لے آئے البتہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز پڑھتے تھے تو اس کے قریب ہی پڑھتے تھے اور جب مسجد کو شہید کر کے اس کی عمارت میں تبدیلیاں کی گئیں تو اس تنے کو حضرت ابی بن کعب اپنے ساتھ لے گئے اور وہ ان کے پاس ہی رہا یہاں تک کہ وہ پرانا ہوگیا اور اسے دیمک لگ گئی جس سے وہ بھرا بھرا ہوگیا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 21252]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره دون قصة أخذ أبى للجزع وقد تفرد بها عبدالله بن محمد، فمثله لا يقبل تفرده، وهذا إسناد ضعيف لضعف سعيد بن سلمة ، لكنه توبع
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا قیامت کے دن میں تمام انبیاء کرام (علیہم السلام) کا امام وخطیب اور صاحب شفاعت ہوں گا اور یہ بات میں کسی فخر کے طور پر نہیں کہہ رہا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 21253]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد حسن فى المتابعات والشواهد من أجل عبدالله بن محمد
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں انصار ہی کا ایک فرد ہوتا اور اگر لوگ ایک راستے میں چلیں تو میں انصار کے ساتھ ان کے راستے پر چلوں گا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 21254]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد حسن فى المتابعات والشواهد من أجل عبدالله بن محمد
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ " والزمہم کلمۃ التقوی " میں کلمہ تقوی سے مرادلا الہ الا اللہ ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 21255]
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا قیامت کے دن میں تمام انبیاء کرام (علیہم السلام) کا امام وخطیب اور صاحب شفاعت ہوں گا اور یہ بات میں کسی فخر کے طور پر نہیں کہہ رہا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 21256]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف شريك، لكنه توبع، وعبدالله بن محمد حسن فى المتابعات والشواهد
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں انصار ہی کا ایک فرد ہوتا اور اگر لوگ ایک راستے میں چلیں تو میں انصار کے ساتھ ان کے راستے پر چلوں گا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 21257]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد حسن فى المتابعات والشواهد من أجل عبدالله بن محمد
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں انصار ہی کا ایک فرد ہوتا اور اگر لوگ ایک راستے میں چلیں تو میں انصار کے ساتھ ان کے راستے پر چلوں گا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 21258]
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا قیامت کے دن میں تمام انبیاء کرام (علیہم السلام) کا امام وخطیب اور صاحب شفاعت ہوں گا اور یہ بات میں کسی فخر کے طور پر نہیں کہہ رہا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 21259]
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جس وقت مسجد نبوی کی چھت انگوروں کی بیل سے بنی ہوئی تھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک تنے کے قریب نماز پڑھتے تھے اور اسی تنے سے ٹیک لگا کر خطبہ ارشاد فرماتے تھے ایک دن ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا آپ اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ ہم آپ کے لئے کوئی ایسی چیز بنادیں جس پر آپ جمعے کے دن کھڑے ہو سکیں تاکہ لوگ آپ کو دیکھ سکیں اور آپ کے خطبے کی آواز بھی ان تک پہنچ جایا کرے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی۔ چنانچہ انہوں نے ایک منبر تین سیڑھیوں پر مشتمل بنا دیاجب منبر بن کر تیار ہوگیا اور اس جگہ پر لا کر اسے رکھ دیا گیا جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے رکھوایا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف آوری کے ارادے سے اس تنے کے آگے سے گذرے تو وہ تنا اتنا رویا کہ چٹخ گیا اور اندر سے پھٹ گیا یہ دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم واپس آئے اور اس پر اپنا ہاتھ پھیرا یہاں تک کہ وہ پرسکون ہوگیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لے آئے البتہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز پڑھتے تھے تو اس کے قریب ہی پڑھتے تھے اور جب مسجد کو شہید کر کے اس کی عمارت میں تبدیلیاں کی گئیں تو اس تنے کو حضرت ابی بن کعب اپنے ساتھ لے گئے اور وہ ان کے پاس ہی رہا یہاں تک کہ وہ پرانا ہوگیا اور اسے دیمک لگ گئی جس سے وہ بھرا بھرا ہوگیا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 21260]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لتفرد عبدالله بن محمد به بهذه السياقة. واصل القصة صحيح دون قصة اخذ ابي بن كعب للجذع