حضرت نواس بن سمعان کلابی سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن دجال کا بیان کیا تو اس کی ذلت بھی بیان کی (کہ وہ کانا ہے اور اللہ کے نزدیک ذلیل ہے) اور اس کی بڑائی بھی بیان کی (کہ اس کا فتنہ سخت ہے اور وہ عادت کے خلاف باتیں دکھلا دے گا) یہاں تک کہ ہم سمجھے کہ وہ ان کھجوروں میں ہے (یعنی ایسا قریب ہے گویا حاضر ہے یہ آپ کے بیان کا اثر اور صحابہ کے ایمان کا سبب تھا) جب ہم لوٹ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے (یعنی دوسرے وقت) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کے ڈر کا اثر ہم میں پایا (ہمارے چہروں پر گھبراہٹ اور خوف سے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تمہارا کیا حال ہے؟ ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کا ذکر کیا اس کی ذلت بھی بیان کی اور اس کی عظمت بھی بیان کی یہاں تک کہ ہم سمجھے کہ وہ انہی کھجور کے درختوں میں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دجال کے سوا اوروں کا مجھے زیادہ ڈر ہے تم پر اور دجال اگر میری موجودگی میں نکلا تو میں اس سے حجت کروں گا تمہاری طرف سے (تم الگ رہو گے) اور اگر اس وقت نکلے جب میں تم میں نہ ہوں (بلکہ میری وفات ہوجائے) تو ہر ایک شخص اپنی حجت آپ کرلے اور اللہ میرا خلیفہ ہے ہر مسلمان پر۔ دیکھو! دجال جوان ہے اس کے بال بہت گھنگھریالے ہیں اس کی آنکھ ابھری ہوئی ہے، دیکھو دجال خلسہ سے نکلے گا جو شام اور عراق کے درمیان (ایک راہ راہ) ہے اور فساد پھیلاتا پھرے گا دائیں طرف اور بائیں طرف ملکوں میں اے اللہ کے بندوں مضبوط رہنا ایمان پر ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ کتنے دنوں تک زمین پر رہے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چالیس دن تک جن میں ایک دن سال بھر کا ہوگا اور ایک دن ایک مہینے کا اور ایک دن ایک ہفتے کا اور باقی دن تمہارے ان دنوں کی طرح ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ دن جو ایک برس کا ہوگا کیا اس میں ہم کو ایک دن کی (پانچ نمازیں) کافی ہوں گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اندازہ کر کے نماز پڑھ لو، ہم نے عرض کیا، وہ زمین میں کس قدر جلد چلے گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کی مثال بارش کی سی ہے جو ہوا کے بعد آتی ہے، وہ ایک قوم کے پاس آئے گا اور ان کو اپنی طرف بلائے گا وہ اس کی مان لیں گے اور اس پر ایمان لائیں گے (معاذ اللہ وہ الوہیت کا دعوی کرے گا) پھر وہ آسمان کو حکم دے گا ان پر پانی بر سے گا اور زمین کو حکم دے گا وہ اناج اگائے گی اور ان کے جانور شام کو آئیں گے (چراگاہ سے لوٹ کر) ان کی کوہان خوب اونچی یعنی خوب موٹے تازے ہو کر اور ان کے تھن خوب بھرے ہوئے دودھ والے اور ان کی کوکھیں پھولی ہوں گی پھر ایک قوم کے پاس آئے گا ان کو اپنی طرف بلائے گا وہ اس کی بات نہ مانیں گے (اس کے اللہ ہونے کو رد کردیں گے) آخر دجال ان کے پاس سے لوٹ جائے گا صبح کو ان کا مالک قحط زدہ ہوگا اور ان کے ہاتھ میں کچھ نہیں رہے گا۔ پھر دجال ایک کھنڈر پر سے گزرے گا اور اسے کہے گا اپنے خزانے نکال، اس کھنڈر کے سب خزانے اس کے ساتھ ہولیں گے جیسے شہد کی مکھیاں بڑی مکھی یعنی یعسوب کے ساتھ ہوتی ہیں، پھر ایک شخص کو بلائے گا جو اچھا موٹا تازہ جوان ہوگا اور تلوار سے اس کو مارے گا۔ وہ دو ٹکڑے ہوجائے گا اور ہر ایک ٹکڑے کو دوسرے ٹکڑے سے تیر کے (گرنے کے) فاصلہ تک کر دے گا۔ پھر اس کا نام لے کر اس کو بلائے گا، وہ شخص زندہ ہو کر آئے گا اس کا منہ چمکتا ہوگا اور ہنستا ہوگا۔ خیر دجال اور لوگ اسی حال میں ہوں گے کہ اتنے میں اللہ حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کو بھیجے گا اور وہ سفید مینار پر دمشق کے مشرق کی جانب اتریں گے۔ دو زرد کپڑے پہنے ہوئے (جو ورس یا زعفران میں رنگے ہوں گے) اور اپنے دونوں ہاتھ دو فرشتوں کے بازو پر رکھے ہوئے، حضرت عیسیٰ چلیں گے اور دجال کو باب لد پر پائیں گے، وہاں اس مردود کو قتل کریں گے، لوگ اس حال میں ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ وحی بھیجے گا، حضرت عیسیٰ پر اے عیسیٰ میں اپنے بندوں میں سے ایسے بندوں کو نکالا ہے کہ ان سے کوئی لڑ نہیں سکتا تو میرے (مومن) بندوں کو طور پہاڑ پر لے جا اور اللہ تعالیٰ یاجوج اور ماجوج کو بھیجے گا اور جیسے اللہ نے فرمایا من کل حدب ینسلون یعنی ہر ایک ٹیلے پر سے پھسلتے ہوئے محسوس ہوں گے، حضرت عیسیٰ اور آپ کے ساتھی اللہ کی بارگاہ میں دعا کریں گے تو اللہ یاجوج ماجوج کے لوگوں پر ایک پھوڑا بھیجے گا (اس میں کیڑا ہوگا) ان کی گردنوں میں وہ دوسرے دن صبح کو سب مرے ہوئے ہوں گے جیسے ایک آدمی مرتا ہے اور حضرت عیسیٰ اور آپ کے ساتھی پہاڑ سے اتریں گے اور ایک بالشت برابر جگہ نہ پائیں گے جو ان کی چکنائی، بدبو اور خون سے خالی ہو آخر وہ پھر د [مسند احمد/مسنَد الشَّامِیِّینَ/حدیث: 17629]
حضرت نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جتنے بھی دل ہیں، وہ رب العالمین کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہیں، اگر وہ کسی دل کو سیدھا رکھنا چاہے تو سیدھا رکھتا ہے اور اگر ٹیڑھا کرنا چاہے تو ٹیرھا کردیتا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعاء فرماتے تھے اے دلوں کو پلٹنے والے! ہمارے دلوں کو اپنے دین پر ثابت قدمی عطا فرما۔ اور میزان عمل رحمان کے ہاتھ میں ہے، وہ اسے اونچا نیچا کرتا ہے۔ [مسند احمد/مسنَد الشَّامِیِّینَ/حدیث: 17630]
حضرت نواس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نیکی اور گناہ کے متعلق پوچھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نیکی حسن خلق کا نام ہے اور گناہ وہ ہوتا ہے جو تمہارے دل میں کھٹکے اور تم اس بات کو ناپسند سمجھو کہ لوگ اس سے واقف ہوں۔ [مسند احمد/مسنَد الشَّامِیِّینَ/حدیث: 17631]
حضرت نواس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نیکی اور گناہ کے متعلق پوچھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نیکی حسن خلق کا نام ہے اور گناہ وہ ہوتا ہے جو تمہارے دل میں کھٹکے اور تم اس بات کو ناپسند سمجھو کہ لوگ اس سے واقف ہوں۔ [مسند احمد/مسنَد الشَّامِیِّینَ/حدیث: 17632]
حضرت نواس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نیکی اور گناہ کے متعلق پوچھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نیکی حسن خلق کا نام ہے اور گناہ وہ ہوتا ہے جو تمہارے دل میں کھٹکے اور تم اس بات کو ناپسند سمجھو کہ لوگ اس سے واقف ہوں۔ [مسند احمد/مسنَد الشَّامِیِّینَ/حدیث: 17633]
حضرت نواس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ نے ایک مثال بیان فرمائی ہے کہ ایک صراط مستقیم ہے جس کی دونوں جانب دیواریں ہیں، ان دیواروں میں کھلے ہوئے دروازے ہیں، دروازوں پر پردے لٹک رہے ہیں اور راستے کے مرکزی دروازے پر ایک داعی کھڑا کہہ رہا ہے لوگو! سب کے سب اس میں داخل ہوجاؤ، دائیں بائیں منتشر نہ ہو اور ایک داعی راستے کے بیچ میں پکار رہا ہے، جب کوئی شخص ان میں سے کوئی دروازہ کھولنا چاہتا ہے تو وہ اس سے کہتا ہے کہ اسے مت کھولنا، اس لئے کہ اگر تم نے اسے کھول لیا تو اس میں داخل ہوجاؤ گے۔ صراط مستقیم سے مراد اسلام ہے، دیوار سے مراد حدود اللہ ہیں، کھلے ہوئے دروازے محارم ہیں اور راستے کے مرکزی دروازے پر جو داعی ہے، وہ قرآن کریم ہے اور راستے کے عین بیچ میں جو داعی ہے، وہ ہر مسلمان کے دل میں اللہ کا ایک واعظ ہے (جسے ضمیر کہتے ہیں)[مسند احمد/مسنَد الشَّامِیِّینَ/حدیث: 17634]
حضرت نواس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا یہ بہت بڑی خیانت ہے کہ تم اپنے بھائی سے کوئی بات بیان کرو، وہ تمہیں سچا سمجھ رہا ہو، حالانکہ تم اس سے جھوٹ بول رہے ہو۔ [مسند احمد/مسنَد الشَّامِیِّینَ/حدیث: 17635]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جداً، من أجل عمر بن هارون، وقد تابعه عليه الوليد بن مسلم، لكن دلس فيه الوليد
حضرت نواس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ نے ایک مثال بیان فرمائی ہے کہ ایک صراط مستقیم ہے جس کی دونوں جانب دیواریں ہیں، ان دیواروں میں کھلے ہوئے دروازے ہیں، دروازوں پر پردے لٹک رہے ہیں اور راستے کے مرکزی دروازے پر ایک داعی کھڑا کہہ رہا ہے اور ایک داعی اس کے اوپر سے پکار رہا ہے، اللہ سلامتی والے گھر کی دعوت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے صراط مستقیم کی طرف ہدایت دیتا ہے۔ [مسند احمد/مسنَد الشَّامِیِّینَ/حدیث: 17636]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف، بقية يدلس تدليس التسوية، ولم يصرح بالسماع فى جميع طبقات السند
حضرت نواس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ قیامت کے دن قرآن کریم اور اہل قرآن جنہوں نے اس پر عمل بھی کیا ہو کو اس طرح لایا جائے گا کہ سورت بقرہ اور آل عمران اس کے آگے آگے ہوگی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں سورتوں کی تین مثالیں بیان فرمائیں جنہیں میں اب تک بھلا نہیں پایا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ دونوں سورتیں بادل کی طرح ہوں گی یا سائبان کی طرح جن کے درمیان روشنی ہو، یا پرندہ کی صف بستہ قطاروں کی طرح ہوں گی اور اپنے پڑھنے والے کی طرف سے حجت بازی کریں گی۔ [مسند احمد/مسنَد الشَّامِیِّینَ/حدیث: 17637]