سیدنا ابوعامر اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ اوطاس میں ان کا ایک آدمی مارا گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عامر! تجھے غیرت نہ آئی“، سیدنا ابوعامر رضی اللہ عنہ نے یہ آیت پڑھ کر سنا دی، ”اے ایمان والو! اپنے نفس کا خیال رکھنا اپنے اوپر لازم کر لو، اگر تم ہدایت پر ہوئے تو کسی کے بھٹکنے سے تمہیں نقصان نہیں ہو گا۔“ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم غصے میں آ گئے اور فرمایا کہ تم کہاں جا رہے ہو۔؟ آیت کا مطلب تو یہ ہے کہ اے اہل ایمان! اگر تم ہدایت پر ہوئے تو گمراہ کافر تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے۔ [مسند احمد/مسنَد الشَّامِیِّینَ/حدیث: 17165]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، حديث على ابن مدرك عن الصحابة منقطع
سیدنا ابوعامر رضی اللّٰہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”بنو اسد اور اشعر بہترین قبیلے ہیں، جو نہ میدان جنگ سے بھاگتے ہیں اور نہ ہی خیانت کرتے ہیں، وہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں۔“[مسند احمد/مسنَد الشَّامِیِّینَ/حدیث: 17166]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، فيه مجهولان: عبدالله بن ملاذ، ومالك بن مسروح
سیدنا ابوعامر رضی اللّٰہ عنہ کے صاحبزادے عامر کہتے ہیں کہ میں نے یہ حدیث سیدنا معاویہ رضی اللّٰہ عنہ کو سنائی تو انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے «هُمࣿ منّيِ» کے بعد «وَاَنَا مِنهُمࣿ» نہیں فرمایا: تھا بلکہ «وَإِلَيَّ» فرمایا تھا، عامر نے کہا: میرے والد نے اس طرح بیان نہیں کیا بلکہ یہی فرمایا: «وَ اَنَا مِنࣿهُمࣿ» تو سیدنا معاویہ رضی اللّٰہ عنہ نے فرمایا کہ اپنے والد کی حدیث تم زیادہ بہتر جانتے ہو گے۔ [مسند احمد/مسنَد الشَّامِیِّینَ/حدیث: 17166M]
سیدنا ابوعامر رضی اللّٰہ عنہ سے مروی ہے کی ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کہ ساتھ کسی مجلس میں تشریف فرما تھے کہ جبریل علیہ السلام اپنی شکل و صورت بدل کر آ گئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہی سمجھے کے یہ کوئی مسلمان آدمی ہے، انہوں نے سلام کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا، پھر انہوں نے اپنے ہاتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنوں پر رکھ دئیے اور پوچھا: یا رسول اللّٰہ! اسلام سے کیا مراد ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے آپ کو اللّٰہ کے سامنے جھکا دو، لا الہ الا اللّٰہ کی گواہی دو اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بندے اور رسول ہیں، نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو“، انہوں نے پوچھا: جب میں یہ کام کر لوں گا تو مسلمان کہلاؤں گا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں! پھر انہوں نے پوچھا کہ ایمان سے کیا مراد ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللّٰہ پر، یوم آخرت، ملائکہ، کتابوں، نبیوں، موت اور حیات اور بعد الموت، جنت و جہنم، حساب و میزان اور ہر اچھی بری تقدیر اللّٰہ کی طرف سے ہونے کا یقین رکھو، انہوں نے پوچھا کہ جب میں یہ کام کر لوں گا تو مؤمن بن جاؤں گا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں! پھر انہوں نے پوچھا: یا رسول اللّٰہ! احسان سے کیا مراد ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللّٰہ کی عبادت اس طرح کرنا کہ گویا تم اسے دیکھ رہے ہو، اگر یہ تصور نہیں کر سکتے تو پھر یہی تصور کر لو کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔“ انہوں نے پوچھا کہ اگر میں ایسا کر لوں تو کیا میں نے احسان کا درجہ حاصل کر لیا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“ راوی کہتے ہیں کہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جوابات تو سن رہے تھے لیکن وہ شخص نظر نہیں آ رہا تھا جس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم گفتگو فرما رہے تھے اور نہ ہی اس کی بات سنائی دے رہی تھی۔ پھر سائل نے پوچھا: یا رسول اللّٰہ! قیامت کب آئے گی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سبحان اللّٰہ! غیب کی پانچ چیزیں ایسی ہیں جنہیں اللّٰہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا، (پھر یہ آیت تلاوت فرمائی) بیشک قیامت کا علم اللّٰہ ہی کے پاس ہے، وہی بارش برساتا ہے“، وہی جانتا ہے کہ رحم مادر میں کیا ہے؟ کوئی نفس نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کمائے گا؟ اور کوئی نفس نہیں جانتا کہ وہ کس سرزمیں میں مرے گا، بےشک اللّٰہ بڑا جاننے والا باخبر ہے۔“ پہر سائل نے عرض کیا: یا رسول اللّٰہ! اگر آپ چاہیں تو میں آپ کو دو علامتیں بتا سکتا ہوں جو قیامت سے پہلے رونما ہوں گی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بتاؤ“، اس نے کہا: جب آپ دیکھیں کہ باندی اپنی مالکن کو جنم دے رہی ہے اور عمارتوں والے عمارتوں میں ایک دوسرے پر فخر کر رہے ہیں اور ننگے افراد لوگوں کے سردار بن گئے ہیں (تو قیامت قریب آ جائے گی) راوی نے پوچھا: یا رسول اللّٰہ! یہ کون لوگ ہوں گے؟ فرمایا: ”دیہاتی لوگ۔“ پہر وہ سائل چلا گیا اور ہمیں بعد میں اس کا راستہ نظر نہیں آیا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ سبحان اللّٰہ کہہ کر فرمایا: ”یہ جبریل تھے جو لوگوں کو ان کے دین کی تعلیم دینے کے لیے آئے تھے، اس ذات کی قسم جس کی دست قدرت میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے، جبریل میرے پاس (اس مرتبہ کے علاوہ) جب بھی آئے۔ میں نے انہیں پہچان لیا (لیکن اس مرتبہ نہیں پہچان سکا)۔“[مسند احمد/مسنَد الشَّامِیِّینَ/حدیث: 17167]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف على نكارة فى بعض الفاظه، وقد اختلف فيه على شهر
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف عورتوں سے ابتداء نکاح کرنے سے منع کر دیا تھا۔ [مسند احمد/مسنَد الشَّامِیِّینَ/حدیث: 17168]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، شهر بن حوشب مختلف فيه، قوي أمره جماعة وضعفه آخرون