الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


مسند احمد
مسنَدِ المَدَنِیِّینَ رَضِیَ اللَّه عَنهم اَجمَعِینَ
352. حَدِیث مَن شَهِدَ النَّبِیَّ صَلَّى اللَّه عَلَیهِ وَسَلَّمَ
حدیث نمبر: 16585
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّازَّقِ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ سِمَاكٍ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو الْقُرَشِيِّ ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَنْ شَهِدَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَمَرَ بِرَجْمِ رَجُلٍ بَيْنَ مَكَّةَ، وَالْمَدِينَةِ، فَلَمَّا أَصَابَتْهُ الْحِجَارَةُ، فَرَّ، فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" فَهَلَّا تَرَكْتُمُوهُ".
ایک صحابی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کے متعلق حکم دیا کہ اسے مکہ اور مدینہ کے درمیان رجم کر دیا جائے، جب اسے پتھر لگے تو وہ بھاگنے لگا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات معلوم ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ تم نے اسے چھوڑ کیوں نہ دیا؟ [مسند احمد/مسنَدِ المَدَنِیِّینَ رَضِیَ اللَّه عَنهم اَجمَعِینَ/حدیث: 16585]
حكم دارالسلام: حسن لغيره غير أن قوله: «بين مكة والمدينة» فيه نظر، وهذا إسناد ضعيف لجهالة حال عبدالعزيز، فقد انفرد بالرواية عنه سماك بن حرب، وقد اختلف على سماك باسمه
حدیث نمبر: 16586
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّازَّقِ ، قال: أَخْبَرَنَا دَاوُدُ بْنُ قَيْسٍ الصَّنْعَانِيُّ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: حَدَّثَنِي فَنَّجُ ، قَالَ: كُنْتُ أَعْمَلُ فِي الدِّيْنَبَاد، وَأُعَالِجُ فِيهِ، فَقَدِمَ يَعْلَي بْنُ أُمَيَّةَ أَمِيرًا عَلَى الْيَمَنِ، وَجَاءَ مَعَهُ رِجَالٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَنِي رَجُلٌ مِمَّنْ قَدِمَ مَعَهُ وَأَنَا فِي الزَّرْعِ أُصَرَّفُ الْمَاءَ فِي الزَّرْعِ وَمَعَهُ فِي كُمِّهِ جَوْزٌ، فَجَلَسَ عَلَى سَاقِيَةٍ مِنَ الْمَاءِ، وَهُوَ يَكْسِرُ مِنْ ذَلِكَ الْجَوْزِ وَيَأْكُلُه، ثُمَّ أَشَارَ إِلَى فَنَّجَ، فَقَالَ: يَا فَارِسِيُّ، هَلُمَّ، قَالَ: فَدَنَوْتُ مِنْهُ، فَقَالَ الرَّجُلُ لِفَنَّجَ: أَتَضْمَنُ لِي غَرْسَ هَذَا الْجَوْزِ عَلَى هذا الْمَاءِ؟، فَقَالَ لَهُ فَنَّجُ: مَا يَنْفَعُنِي ذَلِكَ؟، فَقَالَ الرَّجُلُ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ بِأُذُنَيَّ هَاتَيْنِ:" مَنْ نَصَبَ شَجَرَةً، فَصَبَرَ عَلَى حِفْظِهَا وَالْقِيَامِ عَلَيْهَا حَتَّى تُثْمِرَ، كَانَ لَهُ فِي كُلِّ شَيْءٍ يُصَابُ مِنْ ثَمَرَتِهَا صَدَقَةٌ عِنْدَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ"، فَقَالَ له فَنَّجُ: آنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ فَنَّجُ: فَأَنَا أَضْمَنُهَا، قَالَ: فَمِنْهَا جَوْزُ الدِّيْنَبَادِ.
فنج کہتے ہیں کہ میں ' دینباذ ' (علاقے کا نام) میں کام کاج کرتا تھا اس دوران یعلی بن امیہ یمن کے گورنر بن کر آ گئے، ان کے ساتھ کچھ صحابہ کرام بھی آئے تھے، ان میں سے ایک آدمی میرے پاس آیا، میں اس وقت اپنے کھیت میں پانی لگا رہا تھا، اس آدمی کی جیب میں اخروٹ تھے، وہ پانی کی نالی پر بیٹھ گیا اور اخروٹ توڑ توڑ کر کھانے لگا، پھر اس شخص نے اشارے سے مجھے اپنے پاس بلایا کہ اے فارسی! ادھر آؤ میں قریب چلا گیا تو وہ کہنے لگا کہ کیا تم مجھے اس بات کی ضمانت دے سکتے ہو کہ اس پانی کے قریب اخروٹ کے درخت لگائے جا سکتے ہیں؟ میں نے کہا کہ مجھے اس ضمانت سے کیا فائدہ ہو گا؟ اس شخص نے کہا کہ میں نے اپنے ان دونوں کانوں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص کوئی درخت لگائے اور اس کی نگہداشت اور ضروریات کا خیال رکھتا رہے تاآنکہ اس پر پھل آ جائے تو جس چیز کو بھی اس کا پھل ملے گا، وہ اللہ کے نزدیک اس کے لئے صدقہ بن جائے گا۔ فنج نے پوچھا کہ کیا واقعی آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے؟ اس شخص نے جواب دیا جی ہاں! اس پر فنج نے انہیں ضمانت دے دی اور اب تک وہاں کے اخروٹ مشہو ر ہیں۔ [مسند احمد/مسنَدِ المَدَنِیِّینَ رَضِیَ اللَّه عَنهم اَجمَعِینَ/حدیث: 16586]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة حال فنج، وهذا الحديث من منكراته، وعبدالله بن وهب مستور الحال