عیاض بن غطیف کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ بیمار ہوگئے، ہم ان کی عیادت کے لئے گئے تو ان کی اہلیہ - جن کا نام تحیفہ تھا - ان کے سر کے قریب بیٹھی ہوئی تھیں، ہم نے ان سے پوچھا کہ ان کی رات کیسی گذری؟ انہوں نے کہا: واللہ! انہوں نے ساری رات اجر و ثواب کے ساتھ گذاری ہے، سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ میں نے ساری رات اجر کے ساتھ نہیں گذاری، پہلے ان کے چہرے کا رخ دیوار کی طرف تھا، اب انہوں نے اپنا چہرہ لوگوں کی طرف کر لیا اور فرمایا کہ میں نے جو بات کہی ہے، تم اس کے متعلق مجھ سے سوال نہیں کرتے؟ لوگوں نے کہا کہ ہمیں آپ کی بات پر تعجب ہوتا تو آپ سے سوال کرتے، انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”جو شخص اللہ کی راہ میں اپنی زائد چیز خرچ کر دے اس کا ثواب سات سو گنا ہوگا، جو اپنی ذات اور اپنے اہل خانہ پر خرچ کرے، کسی بیمار کی عیادت کرے یا کسی تکلیف دہ چیز کو راستے سے ہٹا دے تو ہر نیکی کا بدلہ دس نیکیاں ہونگی، اور روزہ ڈھال ہے بشرطیکہ اسے انسان پھاڑ نہ دے، اور جس شخص کو اللہ جسمانی طور پر کسی آزمائش میں مبتلا کرے وہ اس کے لئے بخشش کا سبب بن جاتی ہے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1690]
سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے آخری کلام یہ تھا کہ ”حجاز میں جو یہودی آباد ہیں اور جزیرہ عرب میں جو اہل نجران آباد ہیں انہیں نکال دو، اور جان لو کہ بد ترین لوگ وہ ہیں جو اپنے انبیاء علیہم السلام کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیتے ہیں۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1691]
سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کا تذکرہ فرمایا اور اس کی ایسی صفات بیان فرمائیں جو مجھے اب یاد نہیں ہیں، البتہ اتنی بات یاد ہے کہ لوگوں نے پوچھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اس وقت آج کی نسبت ہمارے دلوں کی کیفیت کیا ہوگی؟ فرمایا: ”آج سے بہتر ہوگی۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1692]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، عبدالله بن سراقة لم يوثقه غير ابن حبان والعجلي ولم يرو عنه غير عبدالله بن شقيق ولا يعرف سماع ابن سراقة من أبى عبيدة.
سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”حضرت نوح علیہ السلام کے بعد ہر آنے والے نبی نے اپنی اپنی قوم کو دجال سے ڈرایا ہے، اور میں بھی تمہیں اس سے ڈرا رہا ہوں۔“ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے اس کی کچھ صفات بیان فرمائیں، اور فرمایا: ”ہو سکتا ہے کہ مجھے دیکھنے والا یا میری باتیں سننے والا کوئی شخص اسے پا لے۔“ لوگوں نے پوچھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اس وقت ہمارے دلوں کی کیفیت کیا ہوگی؟ کیا آج کی طرح ہوں گے؟ فرمایا: ”بلکہ اس سے بھی بہتر کیفیت ہوگی۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1693]
سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے آخری کلام یہ تھا کہ ”حجاز میں جو یہودی آباد ہیں اور جزیرہ عرب میں جو اہل نجران آباد ہیں انہیں نکال دو، اور جان لو کہ بد ترین لوگ وہ ہیں جو اپنے انبیاء علیہم السلام کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیتے ہیں۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1694]
سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مسلمان نے کسی شخص کو پناہ دے دی، اس وقت امیر لشکر سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ تھے، سیدنا خالد بن ولید اور سیدنا عمروبن العاص رضی اللہ عنہما کی رائے یہ تھی کہ اسے پناہ نہ دی جائے، لیکن سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم اسے پناہ دیں گے، کیونکہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”کوئی بھی شخص کسی بھی شخص کو مسلمانوں پر پناہ دے سکتا ہے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1695]
حكم دارالسلام: حسن . لغيره، وهذا إسناد ضعيف، الحجاج بن أرطاة مدلس وقد عنعن.
ایک مرتبہ ایک صاحب سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ سے ملنے کے لئے آئے تو دیکھا کہ وہ رو رہے ہیں، انہوں نے ان سے رونے کی وجہ پوچھی تو سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں اس لئے رو رہا ہوں کہ ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو ملنے والی فتوحات اور حاصل ہونے والے مال غنیمت کا تذکرہ کیا، اس دوران شام کا تذکرہ بھی ہوا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”ابوعبیدہ! اگر تمہیں زندگی مل جائے تو صرف تین خادموں کو اپنے لئے کافی سمجھنا، ایک اپنے لئے، ایک اپنے ساتھ سفر کرنے کے لئے، اور ایک اپنے اہل خانہ کے لئے جو ان کی خدمت کرے اور ان کی ضروریات مہیا کرے، اور تین سواریوں کو اپنے لئے کافی سمجھنا، ایک جانور تو اپنی سواری کے لئے، ایک اپنے سامان اور بار برداری کے لئے، اور ایک اپنے غلام کے لئے۔“ لیکن اب میں اپنے گھر پر نظر ڈالتا ہوں تو یہ مجھے غلاموں سے بھرا ہوا دکھائی دیتا ہے، میں اپنے اصطبل کی طرف نگاہ دوڑاتا ہوں تو وہ مجھے سواریوں اور گھوڑوں سے بھرا ہوا دکھائی دیتا ہے، اس صورت میں، میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سامنا کس منہ سے کروں گا؟ جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ وصیت فرمائی تھی کہ ”میری نگاہوں میں تم میں سب سے زیادہ محبوب اور میرے قریب ترین وہ شخص ہوگا جو مجھ سے اسی حال میں آکر ملاقات کرے جس کیفیت پر وہ مجھ سے جدا ہوا تھا۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1696]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، مسلم بن أكيس مجهول، وروايته عن أبى عبيدة مرسلة.
طاعون عمواس کے واقعے کے ایک عینی شاہد کا بیان ہے کہ جب سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کی تکلیف شدت اختیار کر گئی تو وہ لوگوں کے سامنے خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے، اور فرمایا: لوگو! یہ تکلیف تمہارے رب کی رحمت، تمہارے نبی کی دعوت اور تم سے پہلے صالحین کی موت رہ چکی ہے، اور ابوعبیدہ اللہ سے دعا کرتا ہے کہ اسے اس میں سے اس کا حصہ عطاء کیا جائے، چنانچہ اسی طاعون کی وباء میں وہ شہید ہوگئے۔ رحمہ اللہ۔ ان کے بعد سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے ان کی نیابت سنبھالی اور خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: لوگو! یہ تکلیف تمہارے رب کی رحمت، تمہارے نبی کی دعوت، اور تم سے پہلے صالحین کی موت رہ چکی ہے، اور معاذ اللہ سے دعا کرتا ہے کہ آل معاذ کو بھی اس میں سے حصہ عطاء کیا جائے، چنانچہ ان کے صاحبزادے عبدالرحمن اس مرض میں مبتلا ہو کر شہید ہو گئے، اور سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے دوبارہ کھڑے ہو کر اپنے لئے دعا کی، چنانچہ ان کی ہتھیلی میں بھی طاعون کی گلٹی نکل آئی۔ میں نے انہیں دیکھا ہے کہ وہ طاعون کی اس گلٹی کو دیکھتے تھے اور اپنی ہتھیلی کو چومتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے کہ تیرے عوض مجھے پوری دنیا بھی مل جائے تو مجھے خوشی نہ ہوگی۔ بہرحال! وہ بھی شہید ہوگئے، ان کے بعد سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ ان کے نائب مقرر ہوئے، انہوں نے کھڑے ہو کر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: لوگو! یہ تکلیف جب آ جاتی ہے تو آگ کی طرح بھڑکنا شروع ہو جاتی ہے، اس لئے تم اس سے اپنی حفاظت کرتے ہوئے پہاڑوں میں چلے جاؤ۔ یہ سن کر ابوواثلہ ہذلی کہنے لگے کہ آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہونے کے باوجود صحیح بات نہیں کہہ رہے، واللہ! آپ میرے اس گدھے سے بھی زیادہ برے ہیں، انہوں نے فرمایا کہ میں آپ کی بات کا جواب نہیں دوں گا، لیکن واللہ! ہم اس حالت پر نہیں رہیں گے، چنانچہ وہ اس علاقے سے نکل گئے اور لوگ بھی نکل کر منتشر ہو گئے، اس طرح اللہ نے ان سے اس بیماری کو ٹالا، سیدنا عمرو رضی اللہ عنہ کو یہ فیصلہ کرتے ہوئے دیکھنے والے کسی صاحب نے یہ بات سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو بتائی تو انہوں نے اس پر کسی قسم کی ناگواری کا اظہار نہ کیا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1697]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، شهر بن حوشب ضعيف، وشيخه فيه مجهول .
امام شعبی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب جیش ذات السلاسل کو روانہ فرمایا تو سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کو مہاجرین پر اور سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو دیہاتیوں پر امیر مقرر فرمایا، اور دونوں سے فرمایا کہ ”ایک دوسرے کی بات ماننا“، راوی کہتے ہیں کہ انہیں بنو بکر پر حملہ کرنے حکم دیا گیا تھا لیکن سیدنا عمرو رضی اللہ عنہ نے بنو قضاعہ پر حملہ کر دیا کیونکہ بنو بکر سے ان کی رشتہ داری بھی تھی، یہ دیکھ کر سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کے پاس آکر کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو ہم پر امیر مقرر کر کے بھیجا ہے جبکہ فلاں کا بیٹا لوگوں کے معاملات پر غالب آگیا ہے اور محسوس ایسا ہوتا ہے کہ آپ کا حکم نہیں چلتا؟ سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک دوسرے کی بات ماننے کا حکم دیا تھا، میں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی پیروی کرتا رہوں گا، خواہ عمرو نہ کریں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1698]
سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے آخری کلام یہ تھا کہ ”حجاز میں جو یہودی آباد ہیں اور جزیرہ عرب میں جو اہل نجران آباد ہیں انہیں نکال دو۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1699]
حكم دارالسلام: صحيح، وقول وكيع فيه: «عن إسحاق بن سعد بن سمرة» وهم، والصواب: سعد بن سمرة .
عیاض بن غطیف کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ بیمار ہو گئے، ہم ان کی عیادت کے لئے گئے تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”جو شخص اللہ کی راہ میں اپنی زائد چیز خرچ کر دے اس کا ثواب سات سو گنا ہوگا، جو اپنی ذات اور اپنے اہل خانہ پر خرچ کرے، کسی بیمار کی عیادت کرے یا کسی تکلیف دہ چیز کو راستے سے ہٹا دے تو ہر نیکی کا بدلہ دس نیکیاں ہوں گی، اور روزہ ڈھال ہے بشرطیکہ اسے انسان پھاڑ نہ دے، اور جس شخص کو اللہ جسمانی طور پر کسی آزمائش میں مبتلا کرے، وہ اس کے لئے بخشش کا سبب بن جاتی ہے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1700]
حكم دارالسلام: إسناده حسن إن كان واصل سمعه من الوليد بن عبدالرحمن.