سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی: «ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عِنْدَ رَبِّكُمْ تَخْتَصِمُونَ»[الزمر: 31]”پھر قیامت کے دن تم اپنے رب کے پاس جھگڑا کرو گے“، تو انہوں نے پوچھا: یا رسول اللہ! اس جھگڑنے سے دنیا میں اپنے مدمقابل لوگوں سے جھگڑنا مراد ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“ پھر جب یہ آیت نازل ہوئی: «ثُمَّ لَتُسْأَلُنَّ يَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِيمِ»[التكاثر: 8]”قیامت کے دن تم سے نعمتوں کے بارے سوال ضرور ہوگا“، تو سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: یا رسول اللہ! ہم سے کن نعمتوں کے بارے سوال ہو گا؟ جبکہ ہمارے پاس تو صرف کھجور اور پانی ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خبردار! یہ نعمتوں کا زمانہ بھی عنقریب آنے والا ہے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1405]
ایک مرتبہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سیدنا عبدالرحمن بن عوف، سیدنا طلحہ، سیدنا زبیر اور سیدنا سعد رضی اللہ عنہم سے فرمایا: میں تمہیں اللہ کی قسم اور واسطہ دیتا ہوں جس کے حکم سے زمین و آسمان قائم ہیں، کیا آپ کے علم میں یہ بات ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”ہمارے مال میں وراثت جاری نہیں ہوتی، ہم جو کچھ چھوڑ جاتے ہیں وہ سب صدقہ ہوتا ہے“؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1406]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح ، خ : 3094، م : 1757 بدون ذكر طلحة
سیدنا زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”انسان کے لئے یہ زیادہ بہتر ہے کہ وہ اپنی رسی اٹھائے، اس سے لکڑیاں باندھے، بازار میں لا کر انہیں رکھے اور انہیں بیچ کر اس سے غناء بھی حاصل کرے اور اپنے اوپر خرچ بھی کرے، بہ نسبت اس کے کہ وہ لوگوں سے مانگتا پھرے خواہ لوگ اسے دیں یا نہ دیں۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1407]
سیدنا زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ غزوہ احد کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لئے اپنے والدین کو جمع فرمایا۔ (یعنی مجھ سے یوں فرمایا کہ ”میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں“)۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1408]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح ، وقوله : «يوم أحد» خطأ من أبي معاوية
سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ غزوہ خندق کے دن میں اور عمر بن ابی سلمہ اطم حسان نامی اس ٹیلے پر تھے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات موجود تھیں، کبھی وہ مجھے اٹھا کر اونچا کرتے اور کبھی میں انہیں اٹھا کر اونچا کرتا، جب وہ مجھے اٹھا کر اونچا کرتے تو میں اپنے والد صاحب کو پہچان لیا کرتا تھا جب وہ بنو قریظہ کے پاس سے گذرتے تھے، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ خندق کے موقع پر جہاد میں شریک تھے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ ”بنو قریظہ کے پاس پہنچ کر ان سے کون قتال کرے گا؟“ واپسی پر میں نے اپنے والد صاحب سے عرض کیا کہ اباجان! واللہ! میں نے اس وقت آپ کو پہچان لیا تھا جب آپ بنو قریظہ کی طرف جا رہے تھے، انہوں نے فرمایا کہ بیٹے! نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس موقع پر میرے لئے اپنے والدین کو جمع کر کے یوں فرما رہے تھے کہ ”میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1409]
سیدنا زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے کسی آدمی کو فی سبیل اللہ ایک گھوڑے پر سوار کرایا یعنی اس کا مالک بنا دیا، جس کا نام غمرہ یا غمراء تھا، کچھ عرصے بعد وہی گھوڑا یا اس کا کوئی بچہ فروخت ہوتا ہوا ملا، چونکہ اس کی نسبت اسی گھوڑے کی طرف تھی جسے انہوں نے صدقہ کر دیا تھا اس لئے اسے دوبارہ خریدنے سے انہیں منع کر دیا گیا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1410]
سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جمعہ کی نماز پڑھتے تھے اور واپس آ کر ٹیلوں میں بیج بکھیرنے لگ جاتے تھے، اس موقع پر ہمیں سوائے اپنے قدموں کی جگہ کے کہیں سایہ نہ ملتا تھا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1411]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، ابن جندب لم يدرك الزبير
سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تم سے پہلے جو امتیں گذر چکی ہیں ان کی بیماریاں یعنی حسد اور بغض تمہارے اندر بھی سرایت کر گئی ہیں، اور بغض تو مونڈ دینے والی چیز ہے، بالوں کو نہیں بلکہ دین کو مونڈ دیتی ہے، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے! تم اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ آپس میں ایک دوسرے سے محبت نہ کرنے لگو، کیا میں تمہیں ایک ایسا طریقہ نہ بتاؤں جسے اگر تم اختیار کر لو تو ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو؟ آپس میں سلام کو رواج دو۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1412]
حكم دارالسلام: قسم السلام صحيح لغيره، وسائره حسن لغيره، وهذا إسناد منقطع، يعيش لم يدرك الزبير
سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ جس طرح سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ اور دیگر حضرات کو میں حدیث بیان کرتا ہوا سنتا ہوں، آپ کو نہیں سنتا، اس کی کیا وجہ ہے؟ فرمایا کہ جب سے میں نے اسلام قبول کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کبھی جدا نہیں ہوا لیکن میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”جو شخص جان بوجھ کر میری طرف جھوٹی بات کی نسبت کرے، اسے اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لینا چاہئے۔“(اس لئے میں ڈرتا ہوں)۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1413]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، وهو حديث متواتر، خ : 107
مطرف کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم نے سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اے ابوعبداللہ! آپ لوگ کس مقصد کی خاطر آئے ہیں؟ آپ لوگوں نے ایک خلیفہ کو ضائع کر دیا یہاں تک کہ وہ شہید ہو گئے، اب آپ ان کے قصاص کا مطالبہ کر رہے ہیں؟ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، سیدنا ابوبکر صدیق، سیدنا عمر فاروق اور سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہم کے زمانے میں قرآن کریم کی یہ آیت پڑھتے تھے: «﴿وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً﴾ [الأنفال: 25] »”اس آزمائش سے بچو جو خاص طور پر صرف ان لوگوں کی نہیں ہو گی جنہوں نے تم میں سے ظلم کیا ہوگا (بلکہ عمومی ہوگی)“، لیکن ہم یہ نہیں سمجھتے تھے کہ اس کا اطلاق ہم پر ہی ہوگا، یہاں تک کہ ہم پر یہ آزمائش آ گئی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1414]
سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تم اپنے بالوں کی سفیدی کو تبدیل کر سکتے ہو لیکن یہودیوں کی مشابہت اس موقع پر بھی اختیار کرنے سے بچو۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1415]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف تفرد برفعه ابن كناسة و اصحاب هشام رووه عن عروة مرسلاً، وهو الصواب
سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم لوگ لیلہ نامی جگہ سے آ رہے تھے، جب ہم لوگ بیری کے درخت کے قریب پہنچے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم قرن اسود نامی پہاڑ کی ایک جانب اس کے سامنے کھڑے ہو گئے اور وادی نخب کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھا اور کچھ دیر کھڑے رہے، لوگ بھی سب کے سب وہیں رک گئے، اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”وج - جو کہ طائف کی ایک وادی کا نام ہے - کا شکار اور ہر کانٹے دار درخت حرم میں داخل ہے، اور اسے شکار کرنا یا کاٹنا اللہ کے حکم کی تعمیل کے لئے حرام ہے۔“ یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف پہنچنے اور بنو ثقیف کا محاصرہ کرنے سے پہلے فرمائی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1416]
سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے اس دن - جبکہ سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ خدمت کی جو انہوں نے کی، یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جھک کر بیٹھ گئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی کمر پر سوار ہوگئے - نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ”طلحہ نے اپنے لئے جنت کو واجب کر لیا۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1417]
سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ احد کے دن اختتام پر ایک عورت سامنے سے بڑی تیزی کے ساتھ آتی ہوئی دکھائی دی، قریب تھا کہ وہ شہداء کی لاشیں دیکھ لیتی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس چیز کو اچھا نہیں سمجھتے تھے کہ وہ خاتون انہیں دیکھ سکے، اس لئے فرمایا کہ ”اس عورت کو روکو، اس عورت کو روکو۔“ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے اندازہ ہو گیا کہ یہ میری والدہ سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا ہیں، چنانچہ میں ان کی طرف دوڑتا ہوا گیا اور شہداء کی لاشوں تک ان کے پہنچنے سے قبل ہی میں نے انہیں جا لیا۔ انہوں نے مجھے دیکھ کر میرے سینے پر دو ہتڑ مار کر مجھے پیچھے کو دھکیل دیا، وہ ایک مضبوط خاتون تھیں اور کہنے لگیں کہ پرے ہٹو، میں تم سے نہیں بولتی، میں نے عرض کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو قسم دلائی ہے کہ ان لاشوں کو مت دیکھیں، یہ سنتے ہی وہ رک گئیں اور اپنے پاس موجود دو کپڑے نکال کر فرمایا: یہ دو کپڑے ہیں جو میں اپنے بھائی حمزہ کے لئے لائی ہوں، کیونکہ مجھے ان کی شہادت کی خبر مل چکی ہے، تم انہیں ان کپڑوں میں کفن دے دینا۔ جب ہم سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کو ان دو کپڑوں میں کفن دینے لگے تو دیکھا کہ ان کے پہلو میں ایک انصاری شہید ہوئے پڑے ہیں، ان کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا گیا تھا جو سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ کیا گیا تھا، ہمیں اس بات پر شرم محسوس ہوئی کہ سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کو دو کپڑوں میں کفن دے دیں اور اس انصاری کو کفن کا ایک کپڑا بھی میسر نہ ہو، اس لئے ہم نے یہ طے کیا کہ ایک کپڑے میں سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کو اور دوسرے میں اس انصاری صحابی رضی اللہ عنہ کو کفن دیں گے، اندازہ کرنے پر ہمیں معلوم ہوا کہ ان دونوں حضرات میں سے ایک زیادہ لمبے قد کے تھے، ہم نے قرعہ اندازی کی اور جس کے نام جو کپڑا نکل آیا اسے اسی کپڑے میں کفن دے دیا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1418]
سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ بیان فرمایا کرتے تھے کہ ایک مرتبہ ان کا ایک انصاری صحابی رضی اللہ عنہ سے - جو غزوہ بدر کے شرکاء میں سے تھے - نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں پانی کی اس نالی میں اختلاف رائے ہو گیا جس سے وہ دونوں اپنے اپنے کھیت کو سیراب کرتے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بات کو ختم کرتے ہوئے فرمایا: ”زبیر! تم اپنے کھیت کو سیراب کر کے اپنے پڑوسی کے لئے پانی چھوڑ دو“، انصاری کو اس پر ناگواری ہوئی اور وہ کہنے لگے کہ یا رسول اللہ! یہ آپ کے پھوپھی زاد ہیں ناں اس لئے آپ یہ فیصلہ فرما رہے ہیں؟ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے روئے انور کا رنگ بدل گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ ”اب تم اپنے کھیت کو سیراب کرو اور جب تک پانی منڈیر تک نہ پہنچ جائے اس وقت تک پانی کو روکے رکھو۔“ گویا اب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کو ان کا پورا حق دلوا دیا، جبکہ اس سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کو ایسا مشورہ دیا تھا جس میں ان کے لئے اور انصاری کے لئے گنجائش اور وسعت کا پہلو تھا، لیکن جب انصاری نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنے تحفظات کا اظہار کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صریح حکم کے ساتھ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کو ان کا پورا حق دلوایا۔ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: واللہ! میں یہ سمجھتا ہوں کہ مندرجہ ذیل آیت اسی واقعے سے متعلق نازل ہوئی ہے: «﴿فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا﴾ [النساء: 65] »”آپ کے رب کی قسم! یہ اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ آپس کے اختلافات میں آپ کو ثالث مقرر نہ کر لیں، پھر اس فیصلے کے متعلق اپنے دل میں کسی قسم کی تنگی محسوس نہ کریں اور اسے مکمل طور پر تسلیم نہ کریں۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1419]
سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”شہر بھی اللہ کے ہیں اور بندے بھی اللہ کے ہیں، اس لئے جہاں تمہیں خیر دکھائی دے، وہیں پر قیام پذیر ہو جاؤ۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1420]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، فيه ثلاثة مجاهيل، لكن الشطر الاول حسن لغيره
سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو میدان عرفات میں اس آیت کی تلاوت کرتے ہوئے سنا: «﴿شَهِدَ اللّٰهُ أَنَّهُ لَا إِلٰهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلَائِكَةُ وَأُولُو الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ لَا إِلٰهَ إِلَّا هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ﴾ [آل عمران: 18] »”اللہ تعالیٰ اس بات پر گواہ ہیں کہ ان کے علاوہ کوئی معبود نہیں، اور فرشتے اور اہل علم بھی انصاف کو قائم رکھتے ہوئے اس بات پر گواہ ہیں، اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں، وہ غالب حکمت والا ہے۔“ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ ”پروردگار! میں بھی اس بات پر گواہ ہوں۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1421]
ام عطاء وغیرہ کہتی ہیں کہ واللہ! ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا ہم اب بھی سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کو دیکھ رہے ہیں، جبکہ وہ ہمارے پاس اپنے ایک سفید خچر پر سوار ہو کر آئے تھے اور فرمایا تھا کہ اے ام عطاء! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو اس بات سے منع فرمایا ہے کہ وہ اپنی قربانی کے گوشت کو تین دن سے زیادہ کھائیں، میں نے کہا کہ میرے باپ آپ پر قربان ہوں، اگر ہمیں ہدیہ کے طور پر کہیں سے قربانی کا گوشت آ جائے تو اس کا کیا کریں؟ انہوں نے فرمایا کہ ہدیہ کے طور پر جو چیز آ جائے اس میں تمہیں اختیار ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1422]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، عبدالله بن عطاء ضعيف، لكن النهي عن أكل لحوم النسك فوق ثلاث صحيح لغيره
سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ غزوہ خندق کے دن میں اور عمر بن ابی سلمہ اطم حسان نامی اس ٹیلے پر تھے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات موجود تھیں، (کبھی وہ مجھے اٹھا کر اونچا کرتے اور کبھی میں انہیں اٹھا کر اونچا کرتا، جب وہ مجھے اٹھا کر اونچا کرتے) تو میں اپنے والد صاحب کو پہچان لیا کرتا تھا جب وہ بنو قریظہ کے پاس سے گذرتے تھے۔ واپسی پر میں نے اپنے والد صاحب سے عرض کیا کہ اباجان! واللہ! میں نے اس وقت آپ کو پہچان لیا تھا جب آپ گھوم رہے تھے، انہوں نے فرمایا کہ بیٹے! کیا واقعی تم نے مجھے دیکھا تھا؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں! انہوں نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ”بنو قریظہ کے پاس جا کر ان کی خبر میرے پاس کون لائے گا؟“ میں چلا گیا اور جب واپس آیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس موقع پر میرے لئے اپنے والدین کو جمع کر کے یوں فرما رہے تھے: ”میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1423]
سفیان بن وہب خولانی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ جب ہم نے ملک مصر کو بزور شمشیر فتح کر لیا تو سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ نے سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے - جو فاتح مصر اور لشکر اسلام کے سپہ سالار تھے - کہا کہ اے عمرو بن العاص! اسے تقسیم کر دیجئے، انہوں نے کہا کہ میں تو اسے ابھی تقسیم نہیں کروں گا، سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ نے قسم کھا کر فرمایا کہ آپ کو یہ اسی طرح تقسیم کرنا پڑے گا جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کو تقسیم فرمایا تھا، انہوں نے کہا کہ امیر المومنین سے خط و کتابت کرنے سے قبل میں اسے تقسیم نہیں کر سکتا، چنانچہ انہوں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں اس نوعیت کا ایک عریضہ لکھ بھیجا، وہاں سے جواب آیا کہ ابھی اسے برقرار رکھو (جوں کا توں رہنے دو) یہاں تک کہ اگلی نسل جنگ میں شریک ہو جائے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1424]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة المبهم الذى لم يسم
سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک غزوہ سے فراغت کے بعد مال غنیمت میں سے انہیں ایک حصہ دیا تھا۔ ان کی والدہ کو بھی ایک حصہ دیا تھا اور گھوڑے کے دو حصے مقرر فرمائے تھے (یعنی ہر گھڑ سوار کو دو حصے، اور ہر پیدل کو ایک حصہ دیا تھا)۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1425]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف ، فليح مجهول
حسن بصری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں آیا اور کہنے لگا کہ کیا میں علی کا کام تمام نہ کر دوں؟ فرمایا: ہرگز نہیں! اور ویسے بھی ان کے ساتھ اتنا بڑا لشکر ہے کہ تم انہیں قتل کر ہی نہیں سکتے؟ اس نے کہا کہ پھر آپ ان کے پاس جا کر خلافت کے معاملے میں جھگڑا کریں؟ انہوں نے فرمایا کہ یہ بھی نہیں ہو سکتا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”ایمان نے جھگڑے کے پاؤں میں بیڑی ڈال دی ہے، اس لئے مومن جھگڑنے والا نہیں ہوتا۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1426]
سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کیوں نہیں بیان کرتے؟ فرمایا کہ جب سے میں نے اسلام قبول کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کبھی جدا نہیں ہوا، لیکن میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”جو شخص جان بوجھ کر میری طرف جھوٹی بات کی نسبت کرے، اسے اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لینا چاہئے۔“(اس لئے میں ڈرتا ہوں)۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1428]
سیدنا زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”انسان کے لئے یہ زیادہ بہتر ہے کہ وہ اپنی رسی اٹھائے، اس سے لکڑیاں باندھے، بازار میں لا کر انہیں رکھے اور انہیں بیچ کر اس سے غناء بھی حاصل کرے اور اپنے اوپر خرچ بھی کرے، بہ نسبت اس کے کہ وہ لوگوں سے مانگتا پھرے، خواہ لوگ اسے دیں یا نہ دیں۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1429]
سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تم سے پہلے جو امتیں گذر چکی ہیں ان کی بیماریاں یعنی حسد اور بغض تمہارے اندر بھی سرایت کر گئی ہیں، اور بغض تو مونڈ دینے والی چیز ہے، بالوں کو نہیں بلکہ دین کو مونڈ دیتی ہے، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے! تم اس وقت تک جنت میں داخل نہیں ہو سکتے جب تک کامل مومن نہ ہو جاؤ، اور تم اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ آپس میں ایک دوسرے سے محبت نہ کرنے لگو، کیا میں تمہیں ایک ایسا طریقہ نہ بتاؤں جسے اگر تم اختیار کر لو تو ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو؟ آپس میں سلام کو رواج دو۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1430]
حكم دارالسلام: قسم السلام صحيح لغيره، وسائره حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة مولى آل الزبير
حسن بصری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں آیا اور کہنے لگا کہ کیا میں علی کا کام تمام نہ کردوں؟ فرمایا: تم انہیں کس طرح قتل کر سکتے ہو؟ اس نے کہا کہ پھر آپ ان کے پاس جا کر خلافت کے معاملے میں جھگڑا کریں؟ انہوں نے فرمایا کہ یہ بھی نہیں ہو سکتا، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”ایمان نے جھگڑے کے پاؤں میں بیڑی ڈال دی ہے، اس لئے مومن جھگڑنے والا نہیں ہوتا۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1433]
سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی: «إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ ٭ ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عِنْدَ رَبِّكُمْ تَخْتَصِمُونَ»[الزمر: 30-31]”بے شک تم مرنے والے ہو اور بےشک وہ بھی مرنے والے ہیں، پھر قیامت کے دن تم اپنے رب کے پاس جھگڑا کرو گے۔“ تو انہوں نے پوچھا: یا رسول اللہ! گناہوں کے ساتھ ساتھ دنیا میں اپنے مد مقابل لوگوں سے جھگڑنا مراد ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، یہی جھگڑا دوبارہ ہوگا یہاں تک کہ حقدار کو اس کا حق مل جائے۔“ اس پر سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا: واللہ! یہ تو بہت سخت بات ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1434]
حكم دارالسلام: إسناده حسن
حدیث نمبر: 1435
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , قَالَ عَمْرٌو : وَسَمِعْتُ عِكْرِمَةَ : وَإِذْ صَرَفْنَا إِلَيْكَ سورة الأحقاف آية 29، وَقُرِئَ عَلَى سُفْيَانَ , عَنِ الزُّبَيْرِ نَفَرًا مِنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُونَ الْقُرْآنَ سورة الأحقاف آية 29، قَالَ: بِنَخْلَةَ، وَرَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يصلي العشاء الآخرة كَادُوا يَكُونُونَ عَلَيْهِ لِبَدًا سورة الجن آية 19 , قال سفيان: كاللبد بعضهم على بعض، كاللبد بعضه على بعض.
سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جنات کے قرآن کریم سننے کا جو تذکرہ قرآن شریف میں آیا ہے وہ وادی نخلہ سے متعلق ہے جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز عشاء پڑھ رہے تھے، اور آیت قرآنی: «﴿كَادُوا يَكُونُونَ عَلَيْهِ لِبَدًا﴾ [الجن: 19] » کا ترجمہ بیان کرتے ہوئے سفیان کہتے ہیں کہ ایک دوسرے پر چڑھے چلے آرہے تھے (یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عبادت میں مصروف دیکھ کر مشرکین بھیڑ لگا کر اس طرح اکٹھے ہو جاتے تھے کہ اب حملہ کیا اور اب حملہ کیا، ایسا محسوس ہوتا تھا)۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1435]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لانقطاع بين عكرمة وبين الزبير
سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جمعہ کی نماز پڑھتے تھے (اور واپس آ کر ٹیلوں میں بیج بکھیرنے لگ جاتے تھے)، اس موقع پر ہمیں سوائے اپنے قدموں کی جگہ کے کہیں سایہ نہ ملتا تھا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1436]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة الواسطة بين مسلم بن جندب وبين الزبير
سیدنا علی رضی اللہ عنہ یا سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ہمیں نصیحت فرماتے تھے اور اللہ کے عذاب سے ڈراتے تھے تو اس کے اثرات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر دکھائی دیتے تھے، اور ایسا محسوس ہوتا تھا کہ آپ اس قوم کو ڈرا رہے ہیں جن کا معاملہ صبح صبح ہی طے ہو جائے گا، اور جب حضرت جبرئیل علیہ السلام سے عنقریب ملاقات ہوئی ہوتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تک نہ ہنستے تھے جب تک وحی کی کیفیت کے اثرات ختم نہ ہو جاتے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1437]
سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم لوگوں کی اچھی خاصی تعداد تھی: «﴿وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً﴾ [الأنفال: 25] »”اس آزمائش سے بچو جو خاص طور پر صرف ان لوگوں کی نہیں ہوگی جنہوں نے تم میں سے ظلم کیا ہوگا (بلکہ عمومی ہوگی)۔“ تو ہم کہنے لگے کہ یہ کون سی آزمائش ہوگی؟ لیکن ہم یہ نہیں سمجھتے تھے کہ اس کا اطلاق ہم پر ہی ہوگا، یہاں تک کہ ہم پر یہ آزمائش آ گئی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1438]