سیدنا ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی سے پکی ہوئی کھجور بطورِ قرض لیں، جب وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مانگنے آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابھی تو میرے پاس کچھ نہیں، اگر چاہو تو کچھ اور مہلت دے دو تاکہ کہیں سے کچھ آجائے تو ہم تجھے دے دیں گے۔“ تو وہ آدمی کہنے لگا: واغدراء یعنی یہ تو دھوکہ ہے، تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ غضب ناک ہو گئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عمر! تم ہمیں چھوڑ دو کیونکہ حق دار کو بات کرنے کی اجازت ہے۔ جاؤ خولہ بنت حکیم انصاریہ کے پاس اور اس سے کچھ کھجوریں لاؤ۔“ وہ وہاں چلے گئے تو وہ کہنے لگیں: اللہ کی قسم! میرے پاس صرف ضرورت کی کھجوریں ہیں۔ انہوں نے آ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ ان سے لے کر قرض ادا کرو۔ جب انہوں نے قرض ادا کر دیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا تم نے پورا پورا دے دیا؟“ انہوں نے کہا: جی ہاں! پورا پورا دے دیا، اور عمدہ دیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کے اچھے بندے وہ ہوتے ہیں جو پورا اور عمدہ دینے والے ہوں۔“[معجم صغير للطبراني/كِتَابُ الْبِيُوع/حدیث: 549]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه البزار فى «مسنده» برقم: 3709، والطبراني فى «الصغير» برقم: 1045 قال الهيثمي: ورجاله رجال الصحيح وروى البزار بعضه، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد: (4 / 140)»