7. باب: اذن سننے والے کے لئے اسی طرح کہنا چاہیے جس طرح مؤذن نے کہا اور پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیج کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے وسیلہ کی دعا کرنے کا استحباب۔
۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا، آپ فرما رہے تھے: ”جب تم مؤذن کو سنو تو اسی طرح کہو جیسے وہ کہتا ہے، پھر مجھ پر درود بھیجو کیونکہ جو مجھ پر ایک دفعہ درود بھیجتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ سے میرے لیے وسیلہ مانگو کیونکہ وہ جنت میں ایک مقام ہے جو اللہ کے بندوں میں سے صرف ایک بندے کو ملے گا اور مجھے امید ہے وہ میں ہوں گا، چنانچہ جس نے میرے لیے وسیلہ طلب کیا اس کے لیے (میری) شفاعت واجب ہو گئی۔“
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جب تم مؤذن سے اذان سنو تو مؤذن کے کلمات کو تم بھی کہو، پھر مجھ پر درود بھیجو، کیونکہ جو مجھ پر ایک دفعہ درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ سے میرے لیے بلند مقام کی درخواست کرو، کیونکہ وہ جنت کا ایک ایسا بلند مقام ہے، جو اللہ کے بندوں میں سے صرف ایک بندے کو ہی مل سکے گا، اور مجھے امید ہے وہ میں ہوں گا تو جس نے میرے لیے وسیلہ کی دعا کی، اس کو میری سفارش حاصل ہو گی۔“
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب مؤذن اللہ أکبر، اللہ أکبر کہے تو تم میں سے (ہر) ایک اللہ أکبر اللہ أکبر کہے، پھر وہ (مؤذن) کہے أشہد أن لا إلا اللہ تو وہ بھی کہے: أشہد أن لا إلہ اللہ پھر (مؤذن) أشہد أن محمد رسول اللہ کہے تو وہ بھی أشہد أن محمدا رسول اللہ کہے، پھر وہ (مؤذن) حی علی الصلاۃ کہے تو وہ لا حول ولا قوۃ إلا باللہ کہے، پھر مؤذن حی علی الفلاح کہے، تو وہ لا حول ولا قوۃ إلا باللہ کہے، پھر (مؤذن) اللہ أکبر اللہ أکبر کہے، پھر (مؤذن) لا إلہ إلا اللہ کہے تو وہ بھی اپنے دل سے لا إلہ إلا اللہ کہے تو وہ جنت میں داخل ہو گا۔“
حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب مؤذن اللهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ، کہے تو تم میں سے کوئی ایک اللهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ، كہے، پھر مؤذن أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، کہے تو وہ بھی أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، کہے، پھر مؤذن أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ کہے تو وہ بھی أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ کہے، پھر وہ مؤذن حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، کہے تو وہ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ، کہے، پھر مؤذن حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ، کہے، تو وہ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ، کہے، پھر مؤذن اللهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ، کہے، تو وہ بھی اللهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ، کہے، پھر مؤذن لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، کہے تو وہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، کہے اور یہ کہنا دل سے ہو تو وہ جنت میں داخل ہو گا۔“
۔ محمد بن رمح اور قتیبہ بن سعید کی دو الگ الگ سندوں سے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے رسول اللہ سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا: ”جس نے مؤذن کی آواز سنتے ہوئے یہ کہا: أشہد أن لا إلہ إلا اللہ وحدہ لا شریک لہ ”میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔“ وأن محمدا عبدہ ورسولہ ”اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔“ رضیت باللہ ربا وبمحمد رسولا وبالإسلام دینا ” میں اللہ کے رب ہونے پر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے پر اور اسلام کے دین ہونے پر راضی ہوں۔“ تو اس کے گناہ بخش دیے جائیں گے۔ ابن رمح نے اپنی روایت میں کہا: جس نے مؤذن کی آواز سنتے ہوئے یہ کہا: وأنا أشہد اور قتیبہ نے وأنا کا لفظ بیان نہیں۔
حضرت سعد بن ابی وقاس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت سنائی کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے مؤذن کی اذان سننے کے وقت کہا: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، میں گواہی دیتا ہوں، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ یگانہ ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، اور میں شہادت دیتا ہوں کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔ رَضِيتُ بِاللهِ رَبًّا وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا، وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا، میں اللہ کو رب مان کر اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو رسول مان کر اور اسلام کو دستور زندگی مان کر راضی اور مطمئن ہوں۔ تو اس کے گناہ بخش دئیے جائیں گے۔ ابن رمح نے اپنی روایت میں کہا، جس نے مؤذن سے اذان سننے وقت کہا: وأنا أشھد، میں بھی شہادت دیتا ہوں، اور قتیبہ نے سامع کے لیے وأنا کا لفظ بیان نہیں کیا۔