قبیصہ (بن عقبہ) نے کہا: میں نے سفیان سے سنا، وہ کہتے تھے: اگر (مرنے والا) کسی وارث کے لئے یا غیر وارث کے لئے سو درہم دینے کا فیصلہ کرے، تو انہوں نے کہا: میں ایسی تمام وصیت کو باطل قرار دوں گا۔ [سنن دارمي/من كتاب الوصايا/حدیث: 3288]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح إلى سفيان، [مكتبه الشامله نمبر: 3299] » اس اثر کی سند صحیح ہے۔ کہیں اور یہ روایت نہیں ملی۔ بعض روایات میں ہے: «ابطلهما» یعنی ان دونوں کیلئے وصیت باطل ہوگی کیونکہ وارث کیلئے وصیت درست نہیں، جیسا کہ (3292) نمبر پر آ رہا ہے۔
قاضی شریح نے کہا: کسی وارث کے لئے (وصیت کا) اقرار کرنا جائز نہیں ہے، انہوں نے کہا، اور حسن رحمہ اللہ نے کہا: موت کے وقت جائز ہونا زیادہ صحیح ہے جو آخرت کے ایام کا پہلا دن اور دنیا (سے جانے) کا آخری دن ہو۔ [سنن دارمي/من كتاب الوصايا/حدیث: 3289]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح إلى شريح وإلى الحسن، [مكتبه الشامله نمبر: 3300] » اس روایت کی سند قاضی شریح اور حسن رحمہ اللہ تک صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 787-791] ، [البيهقي: كتاب الاقرار، باب ماجاء فى اقرار المريض لوارثه 85/6] ۔ امام بخاری نے فرمایا: اور حسن رحمہ اللہ نے کہا: سب سے زیادہ اچھا یہ ہے کہ آدمی دنیا کے آخری دن اور آخرت کے پہلے دن میں صدقہ و خیرات کرے، یعنی ان کے نزدیک موت کے وقت صدقہ و خیرات کرنا افضل ہے۔
ابوقلابہ نے کہا: وارث کے لئے وصیت جائز نہیں ہے۔ [سنن دارمي/من كتاب الوصايا/حدیث: 3290]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح وما وقفت عليه في غير هذا الموضع، [مكتبه الشامله نمبر: 3301] » اس اثر کی سند صحیح ہے۔ کہیں اور یہ روایت نہیں مل سکی، لیکن صحیح حدیث میں اسی طرح وارد ہے۔
حمید سے مروی ہے: ایک آدمی جس کی کنیت ابوثابت تھی، اس نے اپنی موت کے وقت اپنی بیوی کے لئے وصیت کی کہ اس کیلئے اس کے مہر کے چار سو درہم ہیں۔ حسن رحمہ اللہ نے اس کو جائز قرار دیا۔ [سنن دارمي/من كتاب الوصايا/حدیث: 3291]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح إلى حميد وما وقفت عليه في غير هذا المكان، [مكتبه الشامله نمبر: 3302] » اس اثر کی سند صحیح ہے، لیکن «انفرد برواية الدارمي» ۔
سیدنا عمرو بن خارجہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کے پاس تھا جو جگالی کر رہی تھی اور اس کا لعاب میرے دونوں کندھوں کے درمیان بہہ رہا تھا، میں نے سنا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”سنو لوگو! بیشک اللہ تعالیٰ نے ہر صاحب حق (وارث) کے لئے حصہ مقرر کر دیا ہے، اب کسی وارث کے لئے وصیت کرنا جائز نہیں ہے۔“[سنن دارمي/من كتاب الوصايا/حدیث: 3292]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 3303] » اس حدیث کی سند حسن ہے، اور رقم (2565) پر اس کی تخریج گذر چکی ہے۔ نیز دیکھئے: [ترمذي 2121] ، [نسائي 3643] ، [ابن ماجه 2712، وغيرهم]
قتاده رحمہ اللہ سے مروی ہے، اس آیت: «إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ. . . . . .»[بقره: 180/2] میں الله تعالیٰ نے حکم دیا کہ جب موت کا وقت قریب آئے تو اپنے والدین و اقارب کے لئے وصیت کرے، پھر سورہ نساء کی آیت: «يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ . . . . . .»[نساء: 11/4] میں والدین کے لئے حصہ مقرر فرمایا، اور ہر وارث کے لئے مرنے والے کی میراث میں سے حصہ مقرر کر دیا، لہٰذا ان کے لئے اب وصیت نہیں ہے، اور وصیت صرف ان کے لئے خاص ہو گئی جو قرابت یا اور کسی وجہ سے وارث نہ ہوں۔ [سنن دارمي/من كتاب الوصايا/حدیث: 3293]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح إلى قتادة، [مكتبه الشامله نمبر: 3304] » اس اثر کی سند قتادہ رحمہ اللہ تک صحیح ہے، اور اثر موقوف ہے۔ ابن الجوزی نے [ناسخ القرآن، ص: 193] پر اس کو ذکر کیا ہے۔ نیز دیکھئے: [تفسير الطبري 117/3، تفسير آيت مذكوره]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: (مرنے والے) کا مال اولاد کے لئے ہوتا تھا اور وصیت والدین و قرابت داروں کےلئے خاص تھی، اس میں سے جو اللہ نے چاہا منسوخ کر دیا، چنانچہ مرد کے لئے عورت کا ڈبل حصہ رکھا اور والدین میں سے ہر ایک کے لئے چھٹا اور تیسرا حصہ مقرر کر دیا، اور بیوی کے لئے آٹھواں اور چوتھا حصہ اور شوہر کے لئے آدھا اور چوتھا حصہ مقرر فرمایا۔ [سنن دارمي/من كتاب الوصايا/حدیث: 3294]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3305] » اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2747، 6739] ، [البيهقي 263/6] و [ناسخ القران 187]
وضاحت: (تشریح احادیث 3285 سے 3294) ان تمام حصص کی تفصیل آیت: «﴿يُوصِيكُمُ اللّٰهُ فِي أَوْلَادِكُمْ .....﴾ [النساء: 11] » میں موجود ہے اور تفصیل کتاب الفرائض میں گذر چکی ہے۔
عکرمہ اور حسن رحمہما اللہ سے مروی ہے کہ اس آیت: «إِنْ تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ . . . . . .»[بقره: 180/2] کے بموجب وصیت جاری و ساری تھی کہ آیت الميراث: «يُوصِيكُمُ اللَّهُ . . . . . .»[نساء 11/4] نے وصیت کو وارثین کے لئے منسوخ کر دیا۔ [سنن دارمي/من كتاب الوصايا/حدیث: 3295]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3306] » اس کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [تفسير طبري آيت مذكوره 119/2] ۔ ابوتمیلہ کا نام واضح بن یحییٰ، اور یزید: ابن ابی سعید نحوی ہیں۔
وضاحت: (تشریح حدیث 3294) یعنی اب والدین اور قرابت داروں کے لئے جو وارث ہوں وصیت کرنا جائز نہیں رہا اور یہ حکم منسوخ ہوگیا۔ ان تمام آثار و احادیث سے واضح ہوا کہ وارث کے لئے وصیت کرنا جائز نہیں ہے۔