ابوحرة رقاشی نے اپنے چچا سے روایت کیا، وہ کہتے ہیں: میں ایامِ تشریق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کی نکیل تھامے ہوئے تھا اور لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دور ہٹا رہا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: ”سنو لوگو! جاہلیت کا ہر قسم کا سود لغو اور معاف ہے۔ سنو! بیشک الله تعالیٰ نے فیصلہ صادر فرمایا ہے کہ پہلا سود عباس بن عبدالمطلب کا معاف کیا جاتا ہے۔ تمہارے لئے تمہارے اصل مال ہیں (یعنی اصل مال لے لو) نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے۔“[سنن دارمي/من كتاب البيوع/حدیث: 2570]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 2576] » اس روایت کی سند ضعیف ہے لیکن صحیح شواہد کے پیشِ نظر حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 3334] ، [ترمذي 3087] ، [ابن ماجه 3055] ، [أبويعلی 1569] ، [مجمع الزوائد 5692، 6660]
وضاحت: (تشریح حدیث 2569) زمانۂ جاہلیت میں سود کا لین دین کیا جاتا تھا جس کو الله تعالیٰ کے حکم سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں حرام قرار دے دیا۔ انسان اگر کسی کو قرض دے تو اپنا اصل مال اس سے واپس لے، اس کے ساتھ سود نہ لے کیوں کہ سود حرام ہے۔ اس کی تفصیل آگے احادیث میں آ رہی ہے۔ الله تعالیٰ کا فرمان ہے: «﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ﴾ [البقرة: 278] »”اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرو اور سود میں سے جو باقی ہے چھوڑ دو، اگر تم مومن ہو۔ “ اور یہ آخری آیات میں سے ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ کے آخری ایام میں نازل ہوئی۔ اسی طرح ارشادِ باری تعالیٰ ہے: «﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُضَاعَفَةً﴾ [آل عمران: 130] »”اے مومنو! بڑھا چڑھا کر سود نہ کھاؤ۔ “