الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


سنن دارمي
من كتاب البيوع
خرید و فروخت کے ابواب
2. باب: «دَعْ مَا يَرِيبُكَ إِلَى مَا لاَ يَرِيبُكَ» :
2. شک و شبہ کی چیز کو چھوڑ دو
حدیث نمبر: 2568
أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ بُرَيْدِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ، عَنْ أَبِي الْحَوْرَاءِ السَّعْدِيِّ، قَالَ: قُلْتُ لِلْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ: مَا تَحْفَظُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟. قَالَ: سَأَلَهُ رَجُلٌ عَنْ مَسْأَلَةٍ لَا أَدْرِي مَا هِيَ، فَقَالَ: "دَعْ مَا يَرِيبُكَ إِلَى مَا لَا يَرِيبُكَ".
ابوحوراء سعدی نے کہا: میں نے سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما پو چھا: آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا چیز یاد ہے؟ فرمایا: ایک آدمی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی مسئلہ کے بارے میں دریافت کیا جو مجھے معلوم نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا: چھوڑ دے اس چیز کو جس میں شبہ ہے اس چیز کی طرف جس میں شبہ نہیں ہے۔ [سنن دارمي/من كتاب البيوع/حدیث: 2568]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «، [مكتبه الشامله نمبر: 2574] »
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 2518] ، [نسائي 5747] ، [أبويعلی 6762] ، [ابن حبان 722] ، [موارد الظمآن 512] ۔ ابوالجوزاء يا ابوالحوراء کا نام ربيعہ بن شیبان ہے۔

وضاحت: (تشریح حدیث 2567)
یعنی جس طرح محرمات کو چھوڑ دیا جن میں شک و شبہ نہیں ایسے ہی شبہ والی چیز کو چھوڑ دے، اور شک کو چھوڑ کر وہ کر جس میں شک و شبہ نہ ہو۔

حدیث نمبر: 2569
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ الزُّبَيْرِ أَبِي عَبْدِ السَّلَامِ، عَنْ أَيُّوبَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مِكْرَزٍ الْفِهْرِيِّ، عَنْ وَابِصَةَ بْنِ مَعْبَدٍ الْأَسَدِيِّ: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لِوَابِصَةَ:"جِئْتَ تَسْأَلُ عَنِ الْبِرِّ وَالْإِثْمِ؟". قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ. قَالَ: فَجَمَعَ أَصَابِعَهُ فَضَرَبَ بِهَا صَدْرَهُ، وَقَالَ: "اسْتَفْتِ نَفْسَكَ. اسْتَفْتِ قَلْبَكَ يَا وَابِصَةُ ثَلَاثًا الْبِرُّ مَا اطْمَأَنَّتْ إِلَيْهِ النَّفْسُ وَاطْمَأَنَّ إِلَيْهِ الْقَلْبُ، وَالْإِثْمُ مَا حَاكَ فِي النَّفْسِ وَتَرَدَّدَ فِي الصَّدْرِ، وَإِنْ أَفْتَاكَ النَّاسُ وَأَفْتَوْكَ".
سیدنا وابصہ بن معبد اسدی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وابصہ سے فرمایا: تم نیکی و بدی کی بابت پوچھنے آئے ہو؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلیاں جمع کر کے (مٹھی باندھ کر) ان کے سینے پر ماری اور فرمایا: اپنے نفس اور اپنے دل سے پوچھو، نیکی وہ ہے جس پر نفس مطمئن ہو اور دل میں کوئی کھٹک نہ ہو، اور گناہ وہ ہے جو نفس میں کھٹکے اور دل میں وہ متردد ہو، گرچہ لوگ تمہیں (اس کے جواز کا) فتویٰ دے دیں۔ [سنن دارمي/من كتاب البيوع/حدیث: 2569]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف لانقطاعه. الزبير أبو عبد السلام لم يسمع من أيوب، [مكتبه الشامله نمبر: 2575] »
اس روایت کی سند میں انقطاع ہے لیکن حدیث بشواہد صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 2553] ، [أحمد 228/4] ، [أبويعلی 1586] ، [مجمع الزوائد 824-825] ۔ مسلم شریف میں صرف اثم کی تعریف مذکور ہے «والإثم ما حاك ... الخ» ۔

وضاحت: (تشریح حدیث 2568)
اس حدیث میں بتایا گیا ہے کہ نیکی وہ ہے جس پر دل مطمئن ہو، اور کسی کا ڈر یا خوف اس کے کرنے میں نہ ہو، اسی طرح گناه و برائی یہ ہے کہ اس کے کرنے میں دل میں کھٹک پیدا ہو۔
یہ حدیث اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ انسانی فطرت اگر برے ماحول اور صحبتِ بد کی وجہ سے مسخ نہ ہوگئی ہو تو انسان کی صحیح بات کی طرف رہنمائی کرتی اور برائیوں سے روکتی ہے۔
اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ اور نبیٔ صادق ہونے کی دلیل ہے کہ سوال سے پہلے ہی سمجھ لیا کہ کیا پوچھنا چاہتے ہیں، نیز یہ کہ انسان کا دل سب سے بڑا مفتی ہے۔
انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے دل کو ایمان کے نور سے منور رکھے تاکہ وہ اس کی صحیح رہنمائی کرتا رہے۔