الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


سنن دارمي
من كتاب النكاح
نکاح کے مسائل
32. باب في تَزْوِيجِ الأَبْكَارِ:
32. کنواری لڑکیوں سے نکاح کا بیان
حدیث نمبر: 2253
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُطِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا سَيَّارٌ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فَلَمَّا قَفَلْنَا تَعَجَّلْتُ، فَلَحِقَنِي رَاكِبٌ، قَالَ: فَالْتَفَتُّ، فَإِذَا أَنَا بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لِي: "مَا أَعْجَلَكَ يَا جَابِرُ؟"قَالَ: إِنِّي حَدِيثُ عَهْدٍ بِعُرْسٍ، قَالَ:"أَفَبِكْرًا تَزَوَّجْتَهَا أَمْ ثَيِّبًا؟"قَالَ: قُلْتُ: بَلْ ثَيِّبًا، قَالَ:"فَهَلَّا بِكْرًا تُلَاعِبُهَا وَتُلَاعِبُكَ؟"قَالَ: ثُمَّ قَالَ لِي:"إِذَا قَدِمْتَ فَالْكَيْسَ الْكَيْسَ"، قَالَ: فَلَمَّا قَدِمْنَا، ذَهَبْنَا نَدْخُلُ، قَالَ:"أَمْهِلُوا حَتَّى نَدْخُلَ لَيْلًا، أَيْ: عِشَاءً لِكَيْ تَمْتَشِطَ الشَّعِثَةُ، وَتَسْتَحِدَّ الْمُغِيبَةُ".
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ایک سفر میں تھے، جب ہم واپس لوٹے تو میں جلدی کرنے لگا، اچانک پیچھے سے ایک سوار آیا، میں نے مڑ کر دیکھا تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ آپ نے مجھ سے کہا: جابر جلدی کیوں کرتے ہو؟ عرض کیا: کیونکہ میں نے نئی نئی شادی کی ہے۔ فرمایا: کنواری لڑکی سے نکاح کیا ہے یا ثیبہ (شوہردیدہ) سے، سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: شوہر دیدہ ہی سے شادی کی ہے، فرمایا: کنواری سے کیوں نہیں کی، تم اس سے کھیلتے وہ تم سے کھیلتی؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گھر پہنچ کر صحبت ہی صحبت اور ملاقات ہی ہے۔، پھر جب ہم مدینہ میں داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ٹهہرو انتظار کرو یہاں تک کہ رات ہو جائے، یعنی عشاء تک تاکہ بکھرے بالوں والی بناؤ سنگھار کر لے اور جس کا شوہر باہر گیا ہو وہ صفائی ستھرائی کر لے۔ [سنن دارمي/من كتاب النكاح/حدیث: 2253]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2262] »
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 4052] ، [مسلم 1521] ، [نسائي 3236] ، [ابن ماجه 1860] ، [أبويعلی 1793] ، [ابن حبان 2717] ، [الحميدي 1261]

وضاحت: (تشریح حدیث 2252)
اس حدیث سے باکرہ کی فضیلت معلوم ہوئی اور کنواری سے نکاح کرنا مستحب ہوا، اور اپنی بیوی کے ساتھ کھیلنے، اس کے ساتھ ہنسنے ہنسانے کا ثبوت ملا، اور یہ کہ کوئی مصلحت نہ ہو تو باکره ثیبہ سے بہتر ہے، نیز مسافر کافی دن بعد گھر لوٹے تو اپنے آنے کی خبر بیوی کو کر دے اور اتنی مہلت اسے دے کہ وہ بناؤ سنگھار اور صفائی ستھرائی کر لے۔
صحیحین میں ہے کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! والد صاحب شہید ہو گئے اور میرے ساتھ نو بہنیں چھوڑی ہیں، اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ ایسی عورت سے شادی کروں جو ان کی اچھی طرح دیکھ بھال کرے۔
مسلم شریف میں یہ بھی ہے کہ میرا اونٹ بہت کمزور اور سست تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو لکڑی سے کونچا دیا تو وہ خوب تیز دوڑنے لگا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: (کتنا تیز چلنے والا اونٹ ہے) کیا اسے بیچو گے؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اونٹ کو خرید لیا، مدینہ واپس پہنچے تو قیمت بھی ادا کی اور اونٹ بھی مجھے دے دیا۔
سبحان اللہ العظیم! کیا اخلاقِ کریمانہ تھے فخر دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے، اپنے اصحاب کا دل کس طرح رکھتے اور سب سے یکساں محبت و پیار کرتے، اللہ تعالیٰ ہم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار دنیا و آخرت میں نصیب فرمائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہمارا حشر کرے۔
آمین۔