سیدنا جابر بن عبدالله رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر بنائے جانے سے پہلے کھجور کے ایک تنے کے پاس کھڑے ہو کر خطبہ دیا کرتے تھے۔ پھر جب منبر بنا دیا گیا (اور آپ اس کی طرف جانے لگے) تو وہ تنا باریک آواز سے رو پڑا یہاں تک کہ ہم نے اس کی آواز سنی، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر اپنا ہاتھ رکھا تو اس کی آواز تھم گئی۔ [سنن دارمي/من كتاب الصللاة/حدیث: 1601]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «حديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1603] » یہ حدیث صحیح ہے، اور اس کی اصل [بخاري شريف 918] میں موجود ہے۔ نیز حدیث رقم (33، 34) میں اس کی تفصیل گذر چکی ہے۔ مزید حوالے آگے آ رہے ہیں۔
وضاحت: (تشریح حدیث 1600) اگلی روایت اور ابن ماجہ میں ہے اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا نہ کرتے تو وہ تنا قیامت تک روتا رہتا، یہ الله تعالیٰ کی کرشمہ سازی ہے کہ جمادات و اشجار اور حیوانات میں سے جسے چاہے قوتِ گویائی عطا فرما دے، اور یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے نبی ہونے کی شہادت اور معجزهٔ ربانی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں لکڑی کا تنا اس جدائی پر رو پڑا۔ «فداه أبى و أمي عليه افضل الصلاة والتسليم» ۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منبر بنائے جانے سے قبل کھجور کے تنے سے لگ کر خطبہ دیا کرتے تھے، جب منبر بن گیا اور آپ اس کی طرف جانے لگے تو وہ تنا رونے لگا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سینے سے لگایا تو وہ خاموش ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر میں اسے گود میں نہ لیتا (یعنی سینے سے نہ لگاتا) تو قیامت تک روتا رہتا۔ [سنن دارمي/من كتاب الصللاة/حدیث: 1602]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1604] » اس روایت کی سند صحیح ہے اور حدیث رقم (39) پر اس کی تفصیل گذر چکی ہے۔ نیز دیکھئے: [ابن ماجه 1415]
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: جب مدینہ میں لوگوں کی کثرت ہوئی تو لوگ آتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ سن نہیں پاتے اور ایسے ہی واپس ہو جاتے، چنانچہ صحابہ کرام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ: اے اللہ کے نبی! لوگ بڑھ گئے ہیں، آنے والا آتا ہے اور آپ کا کلام سن نہیں پاتا، فرمایا: پھر تم جو چاہو، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انصاری عورت کے لڑکے کو جو نجار (بڑھئی) تھا بلایا اور جنگل کے جھاؤ سے منبر بنانے کو کہا، چنانچہ اس نے دو یا تین سیڑھی بنائیں، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر بیٹھے اور خطبہ دینے لگے، جب انہوں نے ایسا کیا تو وہ لکڑی جس کے پاس کھڑے ہو کر آپ خطبہ دیتے تھے باریک آواز سے رونے لگی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس گئے اور اپنا دست مبارک اس پر رکھا تو وہ چپ ہو گئی۔ [سنن دارمي/من كتاب الصللاة/حدیث: 1604]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «الإسناد ضعيف والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 1606] » اس روایت کی سند ضعیف ہے، لیکن حدیث کی اصل موجود ہے جو بخاری شریف و دیگر کتبِ حدیث میں مختلف مقامات پر موجود ہے۔ دیکھئے: [بخاري 377، 448، 917] ، [مسلم 544] ، [ابن ماجه 1416] ، نیز دیکھئے حدیث رقم (41)
وضاحت: (تشریح احادیث 1601 سے 1604) ان احادیثِ مبارکہ سے متعدد مسائل معلوم ہوئے، اوّل یہ کہ منبر پر کھڑے ہو کر خطبہ دینا ثابت ہوا، منبر لکڑی کا اور تین سیڑھی والا ہو، جگہ تنگ ہو تو ایک طرف رکھ دیا جائے تاکہ صف بندی میں خلل نہ پڑے، علامہ وحیدی نے ابن ماجہ کی شرح میں (1415) لکھا ہے: اس حدیث میں ایک مشہور معجزہ مذکور ہے، یعنی تنے لکڑی کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فراق میں رونا ...... اس کے بعد لکھا ہے: ایک لکڑی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس درجہ محبت، افسوں ہے ان لوگوں پر جو لکڑی سے بھی بدتر ہیں، آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت کو چھوڑ کر دوسرا طریقہ اختیار کرتے ہیں، علماء نے کہا ہے کہ لکڑی جب تک ہری رہتی ہے اس میں جان رہتی ہے اور وہ تسبیح کرتی ہے، احتمال ہے کہ یہ لکڑی (یا تنا) ہرا ہو، نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ مردے کو زندہ کرنے اور اس کو قوتِ گویائی عطا کرنے پر بھی قادر ہے۔