عاصم نے بیان کیا: میں نے امام شعبی رحمہ اللہ سے ایک حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے مجھے وہ حدیث بتائی، میں نے کہا: یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعاً روایت کی جاتی ہے؟ کہا: نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو ہیں (ان کی طرف حدیث منسوب کرنا) ہم کو محبوب ہے کیونکہ اگر (حدیث میں) کمی یا زیادتی ہو تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ دوسرے کی (طرف منسوب) ہو۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 273]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح إلى الشعبي، [مكتبه الشامله نمبر: 274] » اس قول کی سند شعبی سے صحیح ہے، اور اس کو ابن ابی شیبہ نے [مصنف 6275] میں ذکر کیا ہے۔
امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محاقلہ اور مزابنہ سے منع فرمایا، کہا گیا کیا آپ کو رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے علاوہ کوئی اور حدیث یاد نہیں؟ فرمایا: یاد تو ہے، لیکن مجھے قال عبدالله، قال علقمہ کہنا زیادہ پسند ہے۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 274]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح وهو مرسل، [مكتبه الشامله نمبر: 275] » اس قول کی سند صحیح ہے لیکن مرسل ہے، اور حدیث محاقلہ و مزابنہ متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [صحيح بخاري 2207] ، [صحيح مسلم 1539] اس حدیث کی مزید تفصیل کتاب البيوع میں آگے آ رہی ہے۔
وضاحت: (تشریح احادیث 272 سے 274) «محاقله»: کھڑی کھیتی کو پکنے سے پہلے بیچنا۔ «مزابنه»: کچی کھجور پکنے سے پہلے پکی کھجور کے بدلے بیچنے کو کہتے ہیں۔
اسماعیل بن عبیداللہ نے کہا: سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث بیان کرتے تو کہتے: «قال كذا أو نحوه أو شبهه أو شكله»(یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح، اس جیسا یا اس کے معنی میں فرمایا)۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 275]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده فيه علتان: إسماعيل بن عبيد الله المخزومي لم يدرك أبا الدرداء ومحمد بن كثير الثقفي الصنعاني ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 276] » اس روایت میں دو خرابیاں ہیں، اسماعیل کا لقاء سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں، اور محمد بن کثیر ضعیف ہیں اور اس کو ابوزرعہ نے [تاريخ 1473] میں اور خطیب نے [الكفاية ص: 206] میں ذکر کیا ہے۔
ربیعہ بن یزید نے کہا: سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ جب کوئی حدیث بیان فرماتے تو کہتے: «اللهم إلا هكذا أو كشكله»، یعنی یہ حدیث ایسے یا اس کے مثل ہے۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 276]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «رجاله ثقات غير أنه منقطع: ربيعة بن يزيد لم يدرك أبا الدرداء، [مكتبه الشامله نمبر: 277] » اس روایت کے رجال ثقات ہیں لیکن اس میں انقطاع ہے، ربیعہ نے بھی سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ کو دیکھا نہیں، لہٰذا اس قول کی نسبت سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ کی طرف صحیح نہیں ہے۔ اور یہ روایت [تاريخ أبى زرعة 1484] ، [الكفاية ص: 205] ، [مجمع الزوائد 612] ، [تدريب الراوي 103/2] میں موجود ہے۔
عمرو بن میمون نے کہا کہ میں ہر جمعرات کی شام کو سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آتا تھا۔ اور میں نے ان کو کبھی بھی قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے نہیں سنا، ایک شام انہوں نے قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہا تو آنکھیں بھر آئیں، گردن کی رگیں پھول گئیں، میں نے دیکھا کرتے کے بٹن کھلے ہیں اور انہوں نے کہا: «مثله أو نحوه أو شبيه به» ۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 277]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 278] » اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن ماجه 23] ، [مصنف ابن أبى شيبه 6273] ، [المحدث الفاصل ص: 549]
وضاحت: (تشریح احادیث 274 سے 277) یعنی مارے خوف اور ادب کے ان کا یہ حال تھا کہ آنکھیں اشکبار ہوگئیں اور پھر آخر میں فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا، یا اس جیسا، یا اس کے مشابہ فرمایا، اسی پر اکتفا نہیں کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا۔
امام شعبی اور امام ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہما نے روایت کیا کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایام کے بارے میں کوئی حدیث بیان کرتے تو ان کا چہرہ سرخ ہو جاتا اور وہ کہتے: «هكذا أو نحوه، هكذا أونحوه»(یعنی اس طرح یا اس کے ہم معنی آپ نے فرمایا)۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 278]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف فيه أشعث بن سوار، [مكتبه الشامله نمبر: 279] » اس روایت کی سند اشعث بن سوار کی وجہ سے ضعیف ہے، لیکن آگے صحیح سند سے آ رہی ہے۔
وضاحت: (تشریح حدیث 277) ان تمام روایات سے صحابہ و تابعین کے احتیاط کا پتہ چلتا ہے، نیز یہ کہ وہ ڈرتے تھے کہ یہ کہیں کہ: رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا، اور حقیقت میں ان کے حافظے میں کمی واقع ہوگئی ہو اور وہ ہلاکت میں پڑ جائیں، اس لئے وہ یہ کہنا پسند کرتے تھے کہ علقمہ یا عبداللہ نے یہ کہا، یا یہ کہ ایسا فرمایا، یا اس کے مثل یا مشابہ فرمایا، یا یہ کہتے تھے: «أو كما قال صلى اللّٰه عليه وسلم» ۔
توبہ عنبری نے کہا کہ امام شعبی رحمہ اللہ نے مجھ سے کہا: تمہاری فلاں شخص کے بارے میں کیا رائے ہے جو کہتے رہتے ہیں قال رسول الله، قال رسول اللہ؟ میں تو (صحابی رسول) سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس دو ڈیڑھ سال تک بیٹھا رہا اور ”اس حدیث“ کے علاوہ کبھی ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث بیان کرتے نہیں سنا۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 279]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 280] » اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [المصنف 6278] ، [المحدث الفاصل 739] ، [البيهقي 323/9]
امام شعبی رحمہ اللہ نے کہا: میں سیدنا عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ ایک سال تک بیٹھتا رہا لیکن میں نے انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث ذکر کرتے نہیں سنا۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 280]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 281] » اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن ماجه 26] ، [مصنف ابن أبى شيبه 6279] ، [المحدث الفاصل 739]
ثابت بن قطبہ انصاری نے کہا کہ سیدنا عبدالله بن مسعود رضی اللہ عنہ ایک مہینے میں دو یا تین حدیث بیان کرتے تھے۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 281]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده حسن من أجل أبي بكر بن عياش، [مكتبه الشامله نمبر: 282] » اس روایت کی سند حسن ہے، کسی اور جگہ یہ روایت نہیں مل سکی۔
عبدالملک بن عبید نے کہا کہ ہمارے پاس سے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ گزرے تو ہم نے کہا: آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو سنا اس میں سے کچھ بیان کیجئے، کہنے لگے «واتحلل» یعنی «أو كما قال» وغیرہ کہہ کر جائز کر لوں گا۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 282]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 283] » اس کی سند جید ہے، تفصیل آگے آ رہی ہے۔
امام محمد (ابن سیرین) رحمہ اللہ نے کہا کہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کم روایت کرتے تھے، اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ بیان کرتے تو فرماتے: «أو كما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم» ۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 283]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 284] » اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن ماجه 24] ، [مصنف ابن أبى شيبه 6274] ، [المحدث الفاصل 736] ، [جامع بيان العلم 426] ، [الكفاية ص: 206]
محمد نے کہا سیدنا انس رضی اللہ عنہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث بیان کرتے تو کہتے: «أو كما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم» ۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 284]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 285] » اس روایت کی سند صحیح ہے۔ حوالے کے لئے مذکورہ بالا حدیث دیکھئے۔
وضاحت: (تشریح احادیث 278 سے 284) ان تمام روایات سے حدیث بیان کرنے کے بعد «أو كما قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم» یا «قال نحوه أو شبه أو شكله» وغیرہ کہنے کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف غلط حدیث منسوب کرنے کا اندیشہ نہیں رہتا، اور اس سے روایتِ حدیث میں سلف صالحین کی شدید احتیاط کا پتہ لگتا ہے۔
سائب بن یزید نے بیان کیا: میں سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے ساتھ مکہ کی طرف روانہ ہوا، اور مدینہ واپسی تک میں نے انہیں رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث بیان کرتے نہیں سنا۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 285]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 286] » اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن ماجه 29] ، [مصنف ابن أبي شيبه 6277] ، [المحدث الفاصل 752]
قرظہ بن کعب نے کہا کہ جب انصار مدینے سے نکلے تو انہیں رخصت کرتے ہوئے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم جانتے ہو میں تمہیں رخصت کرنے تمہارے ساتھ کیوں آیا ہوں؟ ہم نے کہا: انصار کی فضیلت کی وجہ سے، فرمایا: تم ایسی قوم کے پاس جا رہے ہو جن کی زبانیں کھجور کے درخت کی طرح قرآن پاک کی تلاوت سے ہلتی رہتی ہیں، پس تم ان سے حدیث رسول بیان نہ کرنا، اور میں تمہارا شریک کار ہوں۔ قرظہ نے کہا: اس لئے میں نے کوئی حدیث بیان نہیں کی حالانکہ ان سے میں نے بھی حدیثیں سنی تھیں، جس طرح میرے ساتھیوں نے ان سے احادیث سنی تھیں۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 286]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 287] » اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [طبقات ابن سعد 2/6] ، [مستدرك الحاكم 102/1] ، [جامع بيان العلم 1691، 1692]
وضاحت: (تشریح احادیث 284 سے 286) «فلا تصدوهم بالحديث» یعنی: ان سے حدیث کی روایت میں احتیاط کرنا، جیسا کہ اگلی روایت میں آتا ہے۔
قرظۃ بن کعب نے کہا کہ سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے انصار کی ایک جماعت کو کوفہ کی طرف روانہ کیا، میں بھی ان میں سے تھا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ہمارے ساتھ چلتے ہوئے صرار تک آئے جو مدینہ کے راستے میں پانی کا ایک مقام تھا۔ پھر وہ اپنے پیروں سے مٹی جھاڑتے ہوئے گویا ہوئے: تم کوفہ میں ایسے لوگوں کے پاس پہنچو گے جن کے پاس قرآن کی گنگناہٹ ہو گی، وہ تمہارے پاس آئیں گے اور کہیں گے محمد کے صحابہ آ گئے، وہ آئیں گے اور تم سے حدیث کے بارے میں سوال کریں گے، پس سنو! «اسباغ الوضوء» تین بار ہے، اور دو بار (بھی) کافی ہوتا ہے۔ پھر فرمایا: تم کوفہ پہنچو گے تو ایسی جماعت سے ملو گے جن کے پاس قرآن کی گنگناہٹ ہو گی۔ وہ کہیں گے اصحاب محمد تشریف لائے ہیں، اصحاب محمد آئے ہیں، وہ تمہارے پاس آئیں گے اور حدیث کے بارے میں پوچھیں گے، تو تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کم سے کم حدیث روایت کرنا، اور اس میں میں بھی تمہارا شریک ہوں (یعنی اس معاملے میں)۔ قرظۃ نے کہا: میں لوگوں کے ساتھ بیٹھا تھا، وہ حدیث کا مذاکرہ کرتے تھے اور میں ان سے زیادہ یاد رکھنے والا تھا، لیکن جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی وصیت یاد کرتا تو خاموش رہ جاتا۔ امام دارمی ابومحمد رحمہ اللہ نے فرمایا: میرے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات کے بارے میں حدیث بیان کرنا ہے، آپ کی سنن اور فرائض کے بیان سے احتراز مقصود نہیں۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 287]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف فيه أشعث بن سوار، [مكتبه الشامله نمبر: 288] » اس روایت کی سند ضعیف ہے، لیکن [معرفة السنن والآثار للبيهقي 17739] میں صحیح سند سے موجود ہے۔ دیکھئے: [ابن ماجه 28] ، [المحدث الفاصل 744] ، [مفتاح الزجاجة 50/1] والحدیث السابق۔
وضاحت: (تشریح حدیث 286) ان روایات سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کا روایتِ حدیث میں شدید احتیاط کرنے کا پتہ لگتا ہے۔
علقمہ نے کہا: سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: «قال رسول الله صلى الله عليه وسلم» پھر کانپنے لگے اور کہا: «نحو ذلك أو فوق ذلك»(یعنی «قال رسول الله صلى الله عليه وسلم نحو ذلك أوفوق ذلك» آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح یا اس سے کم و بیش ایسا فرمایا)۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 288]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 289] » اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسند أحمد 423/1، 4016] ، [مستدرك الحاكم 111/1] ، ا [لكفاية ص: 205] ، [جامع بيان العلم 427] ، [التاريخ لأبي زرعة 164]
مجاہد نے کہا: میں مدینے کے راستے میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ہمراہ تھا، میں نے انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث روایت کرتے نہیں سنا سوائے اس کے انہوں نے کہا: میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھا کہ آپ کے پاس کھجور کا ایک گابھا لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”درختوں میں ایک درخت ایسا ہے جس کی مثالی مسلمان کی طرح ہے“، میں نے سوچا کہ کہہ دوں وہ درخت کھجور کا درخت ہے، لیکن دیکھا تو میں سب سے کم عمر ہوں، لہٰذا چپ رہ گیا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: کاش کہ تم نے کہہ دیا ہوتا اور مجھے یہ شرف و عزت حاصل ہو جاتی۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 289]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح وابن أبي نجيح هو: عبد الله. والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 290] » اس روایت کی سند صحیح ہے اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 72] ، [مسلم 2811]
صالح الدھان نے کہا کہ میں نے جابر بن زید کو کبھی یہ کہتے نہیں سنا: «قال رسول الله صلى الله عليه وسلم» اور وہ اس کو بہت عظیم سمجھتے ہوئے اور اس سے بچتے ہوئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جھوٹ نہ منسوب ہو جائے۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 290]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 291] » اس روایت کی سند جید ہے۔ فسوی نے [المعرفة 15/2] میں اسے ذکر کیا ہے۔
عبدالله بن شقیق نے کہا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ (سیدنا کعب رضی اللہ عنہ کے بارے میں پوچھتے ہوئے) ان کے پاس آئے، سیدنا کعب رضی اللہ عنہ نے کہا: ان سے کیا چاہتے ہو؟ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے کسی کو نہیں جانتا جو مجھ سے زیادہ ان کی حدیث کا حافظ ہو، سیدنا کعب رضی اللہ عنہ نے کہا: یقیناً آپ طالب علم اور طالب دنیا کے سوا کسی بھی چیز کے طالب کو ایک نہ ایک دن ضرور پائیں گے کہ وہ اکتا گیا ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا آپ ہی کعب ہیں؟ کہا: جی ہاں! کہا: میں ایسے ہی کے پاس آیا ہوں۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 291]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف لانقطاعه، [مكتبه الشامله نمبر: 292] » اس روایت کی سند میں انقطاع کے سبب یہ روایت ضعیف ہے۔ دیکھئے: [المستدرك 92/1]
طاؤوس نے کہا: رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا: اے اللہ کے رسول! لوگوں میں سب سے زیادہ علم والا کون ہے؟ فرمایا: ”جو لوگوں کا علم اپنے علم کے ساتھ بٹورے اور ہر طالب علم علم کا بھوکا ہوتا ہے۔“[سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 292]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 293] » اس حدیث کی سند دوسرے طرق سے صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسند أبى يعلی 3183] ، [القضاعي 205] ، [مجمع الزوائد 748] و [مصنف عبدالرزاق 4844]
معاویہ بن قرہ نے کہا: میں مشائخ کے حلقہ میں تھا جو عابد بن عمرو سے رجوع کر رہے تھے، ایک طرف بیٹھے ہوئے ایک نوجوان نے کہا: (لوگو) اللہ کے ذکر میں مشغول ہو جاؤ «بارك الله فيكم»، لوگوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا، آیا اس نے ہم کو کس چیز میں مشغول دیکھا ہے؟ پھر ان میں سے کسی نے کہا: تمہیں کس نے اس کا حکم دیا؟ جاؤ بھاگو، اگر پھر ایسا کہا تو ہم تمہیں دیکھ لیں گے، ضرور دیکھیں گے۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 293]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «لم يحكم عليه المحقق، [مكتبه الشامله نمبر: 294] » اس روایت کی سند میں خلیل بن مرہ ضعیف باقی رجال ثقہ ہیں۔
عون بن عبداللہ نے کہا: سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کتنی اچھی ہے وہ مجلس جس میں حکمت بکھیری جائے اور اس میں رحمت کی آس لگائی جائے۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 294]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «رجاله ثقات غير أنه منقطع عون بن عبد الله لم يسمع من عبد الله فيما نعلم، [مكتبه الشامله نمبر: 295] » اس روایت کے رجال ثقہ ہیں، لیکن اس میں انقطاع ہے، عون بن عبداللہ نے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو پایا ہی نہیں، اور یہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول نہیں ہو سکتا۔ دیکھئے: [مجمع الزوائد 775] ، [جامع بيان العنم 215]