سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ: قرآن مجید کی چار آیات میرے بارے میں نازل ہوئیں۔ میری والدہ (جس نے اسلام قبول نہیں کیا تھا) نے یہ قسم اٹھائی کہ میں اس وقت تک کھاؤں گی نہ پیوں گی جب تک میں (سعد) محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نہیں چھوڑتا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت نازل کی: «وَإِنْ جَاهَدَاكَ عَلَى أَنْ تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا»[لقمان: 15]”اگر وہ دونوں تجھ پر زور ڈالیں کہ تو میرے ساتھ اس کو شریک بنائے جس کا تجھے علم نہیں، تو ان کی اطاعت نہ کرنا اور دنیا میں معروف طریقے سے ان دونوں سے اچھا سلوک کر۔“(مال غنیمت سے) مجھے ایک تلوار پسند آئی تو میں نے پکڑ لی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! یہ مجھے عنایت فرما دیں۔ تو یہ آیت نازل ہوئی: «يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَنْفَالِ»[الأنفال: 1]”وہ آپ سے غنیمتوں کی بابت سوال کرتے ہیں۔“ میں بیمار پڑ گیا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس (تیمارداری کے لیے) تشریف لائے تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں اپنا مال تقسیم کرنا چاہتا ہوں، کیا نصف مال کی وصیت کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں“، میں نے کہا: تیسرے حصے کی وصیت کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے اور اس کے بعد تیسرے حصے کی وصیت جائز ہو گئی۔ میں نے انصار کے ایک گروہ کے ساتھ شراب پی تو ان میں سے ایک شخص نے اونٹ کے جبڑے کی ہڈی لے کر میری ناک پر دے ماری۔ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو اللہ تعالیٰ نے شراب کی حرمت نازل فرما دی۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الْوَالِدَيْنِ/حدیث: 24]
سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے (مشرکین مکہ سے) معاہدے کے دوران میں میری ماں (اپنے مشرکانہ عقائد پر قائم) میرے پاس (صلہ رحمی کی) خواہش مند ہو کر آئی، تو میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ میں اس کے ساتھ صلہ رحمی کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں“، ابن عیینہ کہتے ہیں: اس بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی: «لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ»[الممتحنه: 8]”اللہ تمہیں ان لوگوں کی بابت نہیں روکتا جو تم سے دین پر نہیں لڑے ......۔“[الادب المفرد/كِتَابُ الْوَالِدَيْنِ/حدیث: 25]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، الأدب، باب صلة الوالد المشرك: 5978، 2620 و مسلم: 1003 و أبوداؤد: 1668»
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک ریشمی جوڑا جسے سیراء کہا جاتا تھا فروخت ہوتے دیکھا تو کہا: یا رسول اللہ! آپ یہ جوڑا خرید لیں اور جمعہ کے روز زیب تن کر لیا کریں، اور جب آپ کے پاس (دوسرے علاقوں سے) وفود آتے ہیں تو بھی پہن لیا کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ایسا (جوڑا) تو صرف وہی پہنتا ہے جس کا (آخرت میں) کوئی حصہ نہ ہو۔“ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اسی طرح کے جوڑے آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے ایک ریشمی جوڑا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو بھیج دیا۔ انہوں نے کہا: میں یہ (ریشمی جوڑا) کیسے پہنوں حالانکہ آپ اس سے قبل اس بارے میں یہ فرما چکے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلاشبہ یہ جوڑا میں نے تمہیں اس لیے نہیں دیا کہ تم اسے پہنو، بلکہ (اس لیے دیا ہے کہ) تم اسے فروخت کر لو یا پھر کسی کو پہنا دو۔“ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے وہ (جوڑا) اپنے ایک بھائی کو، جو ابھی تک مسلمان نہیں ہوا تھا، مکہ بھیج دیا۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الْوَالِدَيْنِ/حدیث: 26]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، الأدب، باب صلة الأخ المشرك: 5981 و مسلم: 2068، صحيح أبى داؤد: 987»