سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ: قرآن مجید کی چار آیات میرے بارے میں نازل ہوئیں۔ میری والدہ (جس نے اسلام قبول نہیں کیا تھا) نے یہ قسم اٹھائی کہ میں اس وقت تک کھاؤں گی نہ پیوں گی جب تک میں (سعد) محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نہیں چھوڑتا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت نازل کی: «وَإِنْ جَاهَدَاكَ عَلَى أَنْ تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا»[لقمان: 15]”اگر وہ دونوں تجھ پر زور ڈالیں کہ تو میرے ساتھ اس کو شریک بنائے جس کا تجھے علم نہیں، تو ان کی اطاعت نہ کرنا اور دنیا میں معروف طریقے سے ان دونوں سے اچھا سلوک کر۔“(مال غنیمت سے) مجھے ایک تلوار پسند آئی تو میں نے پکڑ لی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! یہ مجھے عنایت فرما دیں۔ تو یہ آیت نازل ہوئی: «يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَنْفَالِ»[الأنفال: 1]”وہ آپ سے غنیمتوں کی بابت سوال کرتے ہیں۔“ میں بیمار پڑ گیا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس (تیمارداری کے لیے) تشریف لائے تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں اپنا مال تقسیم کرنا چاہتا ہوں، کیا نصف مال کی وصیت کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں“، میں نے کہا: تیسرے حصے کی وصیت کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے اور اس کے بعد تیسرے حصے کی وصیت جائز ہو گئی۔ میں نے انصار کے ایک گروہ کے ساتھ شراب پی تو ان میں سے ایک شخص نے اونٹ کے جبڑے کی ہڈی لے کر میری ناک پر دے ماری۔ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو اللہ تعالیٰ نے شراب کی حرمت نازل فرما دی۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الْوَالِدَيْنِ/حدیث: 24]
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 24
فوائد ومسائل: (۱)سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ جلیل القدر صحابی ہیں۔ مختلف آیات کا ان کے بارے میں نازل ہونا ان کی عظمت شان پر دلالت کرتا ہے۔ بعض اوقات ایک طرح کے کئی واقعات رونما ہوتے ہیں اور اس کے بعد ان تمام واقعات کے بارے میں کوئی آیت نازل ہوتی ہے اور جس صحابی کو جس واقعے کا علم ہوتا ہے وہ کہہ دیتا ہے: نزل فی کذا۔ ”یہ (قرآن کا حصہ)فلان کے بارے میں نازل ہوا۔“ (۲) حضرت سعد رضی اللہ عنہ کا کہنا کہ ”یہ آیات میرے بارے میں نازل ہوئیں“ کا یہ مطلب نہیں کہ یہ ان کے ساتھ خاص ہیں کیونکہ یہ قاعدہ ہے: ((العبرة بعموم اللفظ لا بخصوص السبب))”اعتبار لفظ کے عموم کا ہوتا ہے نہ کہ اس خاص سبب کا (جس کے بارے میں کوئی حکم دیا جائے)۔“ اس لیے ان آیات کا حکم پوری امت کے لیے ہے۔ (۳) کافر اور مشرک والدین کے ساتھ رویہ، سعد رضی اللہ عنہ کی والدہ کا واقعہ گزشتہ اوراق میں ذکر ہوا ہے۔ پہلی آیت میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کی ترغیب کا بیان ہے خواہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہوں۔ دین فطرت کی شروع سے یہی تعلیمات رہی ہیں اور اللہ کے برگزیدہ بندے ہمیشہ والدین سے حسن سلوک ہی کرتے چلے آرہے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ ہر نبی کی شریعت میں والدین کے ساتھ حسن سلوک ہی کا حکم دیا گیا تو یہ بعید نہ ہوگا کیونکہ تاریخ سے ایسی بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا والد آزر گو کافر بت فروش تھا اور اسی بنا پر ابراہیم علیہ السلام کو گھر سے نکال دیا لیکن اس کے باوجود ابراہیم علیہ السلام کا اپنے والد سے رویہ مثالی تھا۔ قرآن نے اسے بطور نمونہ پیش کیا ہے کہ اگر والدین کافر ہونے کے ساتھ ساتھ ظلم بھی کریں تب بھی ان کے ظلم کا بدلہ ظلم کے ساتھ نہیں بلکہ حسن اخلاق سے دینا ہے۔ اور نہایت ادب اور خیر خواہی سے انہیں دین اسلام کی ترغیب دینی ہے۔ اور ان کی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی ہے جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام نے کیا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چچا ابو طالب کے لیے کرتے رہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اپنی والدہ کے لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کروائی کہ اللہ ان کی والدہ کو ہدایت دے دے۔ (صحیح مسلم، حدیث: ۲۴۹۱) اسی طرح غار میں تین پھنس جانے والے حضرات کا واقعہ جو بخاری مسلم میں موجود ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل میں بھی والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم نہایت اہتمام کے ساتھ دیا گیا تھا۔ ان میں سے ایک شخص نے اپنا جو عمل پیش کیا وہ یہ تھا کہ ”وہ بکریاں چرا کر واپس آتا تو سب سے پہلے والدین کو دودھ دیتا اور پھر اپنے بیوی بچوں کو دیتا۔“ مزید برآں دیکھا جائے تو اکثر و بیشتر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے والدین کافر اور مشرک تھے لیکن تاریخ میں ایسا کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ کسی نے کافر والدین کے ساتھ بھی بدسلوکی کی ہو۔ دینی برأت اور دشمنی کا ذکر تو ضرور ملتا ہے لیکن اخلاقی طور پر اور ان کی خدمت کے حوالے سے کوئی کوتاہی نظر نہیں آتی۔ دور حاضر میں نو مسلم حضرات کو یہ مسئلہ در پیش ہوتا ہے کہ وہ والدین کے ساتھ کیا سلوک کریں؟ اگر وہ مسلمان بھی نہیں ہوتے اور دین میں رکاوٹ بھی بنتے ہیں؟ جہاں تک دین کا تعلق ہے تو اس میں ان کی بات ہرگز تسلیم نہیں کرنی چاہیے اور دنیاوی معاملات میں ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہیے۔ کافر ہونے کے باوجود اگر والدین بوڑھے ہیں اور خدمت کے محتاج ہیں تو اولاد کو ان کا ہر ممکن خیال رکھنا چاہیے۔ شاید ان کی خدمت سے متأثر ہوکر وہ مسلمان ہو جائیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ مسلمان نہ ہوں اور کوئی دوسرا شخص مسلمان اولاد کے اس حسن سلوک سے متاثر ہوکر مسلمان ہو جائے۔ سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما کا اپنی والدہ کے بارے سوال کرنا جیسا کہ آئندہ حدیث میں آرہا ہے اور آپ کا صلہ رحمی کا حکم دینا بھی اس پر دلالت کرتا ہے کہ والدین خواہ اپنے کفر پر مصر بھی ہوں تب بھی ان سے دنیاوی معاملات میں حسن سلوک کرنا چاہیے۔ اسلامی تاریخ میں ایسی مثالیں تو موجود ہیں کہ مشرک والدین نے اپنی اولاد پر ظلم و ستم ڈھائے جیسا کہ سہیل بن عمرو نے اپنے فرزند سیدنا ابو جندل رضی اللہ عنہ کو اسلام لانے کے جرم میں بیڑیاں ڈال دیں۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ پر ان کے چچا نے زیادتیاں کیں، خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ابو لہب نے ظلم کیا، لیکن تاریخ اس سے خاموش ہے کہ ان میں سے کسی نے بھی باوجود زیادتی کے والدین کے سامنے کوئی بد اخلاقی کی ہو۔ جب کافر والدین کے ساتھ اس قدر حسن سلوک کی تعلیمات ہیں تو مومن والدین سے حسن سلوک کی اہمیت کا اندازہ از خود ہو جاتا ہے۔ (۴) دوسری جس آیت کے بارے میں سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کہ ان کے بارے میں نازل ہوئی وہ ﴿یَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الْاَنْفَالِ﴾”وہ آپ سے غنیمتوں کے متعلق سوال کرتے ہیں۔“ ہے۔ واقعہ یوں ہے کہ غزوہ بدر کے موقع پر سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کو ایک تلوار بہت اچھی لگی، انہوں نے مال غنیمت کی تقسیم سے پہلے ہی عرض کیا کہ یہ بطور زائد انعام مجھے عنایت فرما دیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ابھی تک اس بارے میں کوئی واضح حکم نازل نہیں ہوا تھا اس لیے آپ نے تلوار کو اس کی جگہ رکھنے کا حکم دیا۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے دوبارہ عرض کیا تو آپ نے فرمایا: اسے اس کی جگہ پر رکھ دو۔ پھر تیسری مرتبہ میں نے اصرار کیا تو یہ آیت نازل ہوئی۔ (صحیح مسلم: ۶۲۳۸)الأنفال، نفل کی جمع ہے جس کے معنی ”اصل چیز سے زائد“ کے ہیں۔ غنیمت کو انفال اس لیے کہا جاتا ہے کہ امت محمد علی صاحبہا الصلاۃ والسلام پر بطور زائد، اصل ثواب کے علاوہ، اسے حلال کیا گیا ہے۔ پہلی امتوں کے لیے مال غنیمت کا استعمال درست نہیں تھا۔ (تفسیر البغوي) (۵) تیسری آیت کا ذکر نہیں ہے۔ واقعہ یوں ہے کہ سعد رضی اللہ عنہ بیمار پڑ گئے اور وہ مکہ ہی میں تھے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی تیمار داری کے لیے گئے۔ آپ ہجرت کرنے کے بعد اس جگہ میں موت کو ناپسند کرتے تھے۔ ایک روایت میں ہے کہ سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول دعا کریں اللہ مجھے میری ایڑیوں کے بل نہ پھیرے، یعنی میری موت مکہ میں نہ آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”امید ہے اللہ تعالیٰ تجھے صحت یاب کرے گا اور تجھ سے بہت سے لوگوں کو نفع دے گا۔“ پھر سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول کیا میں سارے مال کی وصیت کردوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں۔“ انہوں نے کہا: آدھے کی وصیت کردوں؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں“ انہوں نے عرض کیا: کیا تیسرے حصے کی کرسکتا ہوں؟ آپ نے فرمایا: ”چلو تیسرے کی کرلو ویسے تیسرا بھی ہے زیادہ۔ تم اپنے ورثاء کو دولت مند چھوڑ کر فوت ہو یہ اس سے بہتر ہے کہ (تم سارا مال تقسیم کرکے)انہیں تنگ دست اور محتاج چھوڑ جاؤ کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔“(صحیح البخاري، حدیث: ۲۷۴۲،۲۷۴۴) انسان صحت و عافیت میں اپنا کل سرمایہ بھی فی سبیل اللہ خرچ کرنا چاہے یا کسی کو دینا چاہے تو دے سکتا ہے بشرطیکہ وہ عاقل، بالغ اور با اختیار ہو۔ مرتے وقت یا جس بیماری سے جاں نبر ہونے کا امکان نہ ہو، اس میں تہائی ۳؍۱ مال سے زیادہ کی وصیت کرنا یا اللہ کے راستے میں دینے کے لیے کہنا شرعاً درست نہیں ہے کیونکہ یہ متروکہ مال ورثاء کا حق ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا فرمان ہے: ((لَو غَضَّ النَّاسُ إلَی الرُّبْعِ لِأَنّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَال: الثُّلُثُ وَالثُّلُثُ کَثِیرٌ))(صحیح البخاري، ح: ۲۷۴۳) کاش لوگ (وصیت کو)چوتھائی تک کم کر دیتے تو بہتر ہوتا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ”تہائی خرچ کرسکتے ہو اور تہائی بھی بڑی رقم ہے۔“ اس لیے تہائی سے بھی کم مال کی وصیت کرنا ہی بہتر ہے تاکہ ورثاء کو زیادہ سے زیادہ فائدہ ہو۔ اور ورثاء کو محروم کرنے کے لیے مال کو اللہ کے راستے میں تقسیم کرنا شرعاً ناجائز ہے اور اس کی وصیت نافذ نہیں ہوگی جو ایسا کرے گا۔ (۶) اگر کوئی شخص مرتے وقت ساری جائیداد کسی کے نام کر جاتا ہے اور ورثاء کو محروم کر جاتا ہے تو حاکم وقت کی ذمے داری ہے کہ وہ ورثاء کو ان کا حق دلائے۔ (۷) اپنا کل سرمایہ فی سبیل اللہ یا کسی کو دینا جائز نہیں۔ اس بارے میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ والا واقعہ پیش کیا جاتا ہے حالانکہ انہوں نے سارا سرمایہ پیش نہیں کیا تھا بلکہ صرف گھر میں موجود مال پیش کیا تھا۔ جبکہ اس کے برعکس کئی نصوس شرعیہ سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان اپنا سارا مال خرچ نہیں کر سکتا ان میں سے چند کا ذکر کیا جاتا ہے: ۱۔ قرآن مجید میں ہے: ﴿وَ لَا تَجْعَلْ یَدَكَ مَغْلُوْلَةً اِلٰى عُنُقِكَ وَ لَا تَبْسُطْهَا کُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا﴾(بنی اسرائیل: ۲۹) ”اور نہ اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا کر لے (کہ کچھ بھی خرچ نہ کرے)اور نہ اسے کھول دے پورا کھول دینا ورنہ ملامت کیا ہوا، تھکا ہارا ہو کر بیٹھ رہے گا۔“ یہ آیت اپنے مفہوم کے لحاظ سے اظہر من الشمس ہے کہ انسان اپنا پورا مال خرچ نہیں کر سکتا۔ ۲۔ ارشاد ربانی ہے: ﴿وَ اٰتُوْاحَقَّهٗ یَوْمَ حَصَادِہٖ وَ لَا تُسْرِفُوْا اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ﴾(الانعام: ۱۴۱) ”اور اس کا حق اس کی کٹائی کے دن ادا کرو اور حد سے نہ گزرو، یقیناً وہ حد سے گزرنے والوں سے محبت نہیں کرتا۔“ ۳۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا() اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْٓا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِ وَ کَانَ الشَّیْطٰنُ لِرَبِّهٖ کَفُوْرًا﴾(بنی اسرائیل: ۲۶۔۲۷) ”اور فضول خرچی بالکل نہ کرو۔ بے شک فضول خرچی کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان ہمیشہ سے اپنے رب کا بہت نا شکرا ہے۔“ ۴۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی خوبیاں بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿وَالَّذِیْنَ اِِذَا اَنفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَلَمْ یَقْتُرُوْا وَکَانَ بَیْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا﴾(الفرقان: ۶۷) ”اور وہ جب خرچ کرتے ہیں تو فضول خرچی کرتے اور نہ خرچ میں تنگی کرتے ہیں اور ان کا خرچ اس کے درمیان معتدل ہوتا ہے۔“ ۵۔ جب کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی توبہ کا قرآن مجید میں اعلان ہوا۔ (توبة ۱۱۸)تو کعب رضی اللہ عنہ نے خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہو کر کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ((ان من توبتي ان انخلع من مالی صدقة الی اللّٰه والی رسوله۔)) ”اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بے شک میری توبہ میں سے یہ ہے کہ میں اپنے مال سے الگ ہو جاؤں، یہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف صدقہ ہے۔“ ایک روایت میں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((امسك علیه بعض مالك فهو خیر لك۔)) ”اپنا کچھ مال اپنے پاس رکھ، وہ تیرے لیے بہتر ہے۔“(بخاري، کتاب المغازی: ۴۴۱۸، مسلم،کتاب التوبة: ۷۰۱۶) یہ حدیث اس بارے میں بالکل واضح ہے کہ آدمی اپنے سارے مال سے الگ نہیں ہو سکتا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنا کچھ مال اپنے پاس رکھ۔ ۶۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ میرے پاس ایک دینار (سونے کا ایک سکہ)ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کو اپنی جان پر صدقہ کر۔ (گویا اچھی نیت سے آدمی اپنے اوپر خرچ کرے گا تو یہ بھی ثواب کا باعچ ہو گا)اس نے کہا: میرے پاس ایک اور ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنی اولاد پر صدقہ کر، اس نے کہا میرے پاس ایک اور ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنی بیوی پر صدقہ کر، اس نے کہا: میرے پاس ایک اور ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے خادم پر صدقہ کر۔ اس نے کہا: میرے پاس ایک اور ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو بہتر جانتا ہے۔(ابي داود کتاب الزکوٰة: ۱۶۹۱۔ نسائي کتاب الزکوٰة: ۲۵۳۶) اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آدمی کے مال کا سب سے پہلے اسے خود حق دار قرار دیا ہے۔ اگر اس نے سارا مال کسی اور کو دے دیا تو اس کا اپنا حق کہاں گیا، اس طرح کسی پرائے کو سارا مال دینے سے بیوی اور بچوں کا حق کہاں گیا؟ ۷۔ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے اپنے غلام کے بارے میں کہا کہ یہ میرے مرنے کے بعد آزاد ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع ملی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تیرا کوئی اور مال ہے؟ اس نے کہا نہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا وہ غلام فروخت کیا اور اس کی قیمت اس کے سپرد کی اور فرمایا: اپنی ذات پر خرچ کرنے کے ساتھ آغاز کر، پھر اگر بچ جائے تو اپنے اہل خانہ پر، پھر بچے تو اپنے رشتہ دار پر۔ (مسلم: ۲۳۱۳) اس حدیث سے بھی واضح ہوتا ہے کہ انسان اپنا سارا مال کسی کو نہیں دے سکتا بلکہ پہلے خود ذات پر خرچ کرے اور پھر درجہ بدرجہ تعلق داروں پر خرچ کرے۔ ۸۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((خیر الصدقة ما کان عن ظهر غنی وابدء بمن تعول۔))(بخاري: ۱۴۲۶) ”بہترین صدقہ وہ ہے جو مالداری کے بعد ہو (یعنی اس کے بعد بھی آدمی کے پاس مال باقی رہے)اور پہلے ان کو اپنا مال دے جو تیرے زیر پرورش ہیں۔“ ایک روایت میں ہے: ((لا صدقة الا عن ظهر غنی))(مسند احمد) ”صدقہ صرف مال داری کے بعد ہی ہے۔“ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آدمی اپنے سارے مال سے دستبردار نہیں ہو سکتا۔ ۹۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ ایک آدمی آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ کرنے کا حکم دیا تو لوگوں نے صدقہ کے طور پر کپڑے پیش کیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی کو دو کپڑے دینے کا حکم دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر صدقہ کرنے کا حکم دیا تو اس نے ایک کپڑا صدقہ کر دیا، آپ نے فرمایا: اپنا کپڑا پکڑ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ڈانٹا۔ (نسائي: ۲۵۳۷۔ ابي داود: ۱۶۷۵) اس حدیث میں ضرورت مند آدمی کو دو میں سے ایک کپڑا صدقہ کرنے پر آپ ڈانٹ رہے ہیں۔ المختصر مذکورہ دلائل سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ آدمی اپنا مکمل مال صدقہ یا ہبہ یا اس کی وصیت نہیں کر سکتا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ عنایت فرمائے۔ آمین! (۸) مرتے وقت یا صحت و عافیت میں اپنی جائیداد کا کچھ حصہ جو ثلث سے کم ہو اللہ کے راستے میں وقف کرنا یا کسی ادارے اور مسجد کے نام کروا دینا شرعاً مستحسن ہے۔ اور دور حاضر میں، جبکہ حکومت دینی مدارس کی سرپرستی بھی نہیں کرتی، اس کی اشد ضرورت ہے۔ مسلمانوں کو اس کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ قادیانیوں میں، ان کے باطل پر ہونے کے باوجود، آج بھی یہ طریقہ کار موجود ہے۔ علمائے کرام کو اس کی طرف عوام الناس کی توجہ مبذول کرانی چاہیے۔ (۹) چوتھا شراب کی حرمت والی آیت کا تذکرہ کیا۔ مصنف رحمہ اللہ نے یہاں اس آیت کا ذکر نہیں کیا صحیح مسلم میں یہ واقعہ قدرے تفصیل سے ہے اور وہاں آیت کا ذکر بھی موجود ہے۔ سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ شراب کی حرمت سے پہلے میں مہاجرین اور انصار کی ایک مشترکہ مجلس میں گیا تو انہوں نے کہا: آؤ ہم تجھے کھلاتے اور شراب پلاتے ہیں۔ جب میں ان کے ساتھ ایک باغ میں گیا تو وہاں اونٹنی کا بھنا ہوا سر تھا اور شراب کی ایک مشک، کہتے ہیں: میں نے ان کے ساتھ مل کر کھایا اور شراب پی۔ پھر انصار اور مہاجرین کا تذکرہ چلا تو میں نے کہا: مہاجرین انصاریوں سے افضل اور بہتر ہیں۔ کہتے ہیں (کہ یہ سن کر)ایک آدمی نے اونٹ کا ایک جبڑا لے کر مجھے مارا اور میری ناک زخمی ہوگئی۔ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور ساری صورت حال سے آپ کو آگاہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے میرے بارے میں شراب کا یہ حکم نازل فرمایا: ﴿اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ﴾(المائدة: ۹۰) ”بے شک شراب اور جوا، آستانے اور فال نکالنے کے تیر، سب گندے کام ہیں اور شیطان کے عمل سے ہیں۔“(صحیح مسلم، فضائل الصحابة، حدیث: ۶۲۳۸) (۱۰) جو لوگ کہتے ہیں کہ قرآن نے شراب کو حرام قرار نہیں دیا سعد رضی اللہ عنہ کا یہ اثر ان کے خلاف دلیل ہے جنہوں نے مذکورہ بالا آیت کو حرمت شراب پر محمول نہیں کیا ہے۔ اور صحابی کا فہم کسی عام جاہل انسان کے فہم سے کہیں زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ نیز حرمت شراب کا حکم احادیث میں صراحت کے ساتھ موجود ہے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 24