2136. آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بددعا کا باعث رحمت و تزکیہ ٹھہرنا
حدیث نمبر: 3178
-" يا أم سليم! أما تعلمين أن شرطي على ربي؟ أني اشترطت على ربي فقلت: إنما أنا بشر أرضى كما يرضى البشر وأغضب كما يغضب البشر فأيما أحد دعوت عليه من أمتي بدعوة ليس لها بأهل أن يجعلها له طهورا وزكاة وقربة يقربه بها منه يوم القيامة".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا، جو انس کی ماں تھیں، کے پاس ایک یتیم بچی تھی۔ ( ایک دن) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بچی کو دیکھا اور پوچھا: ” تو یہاں ہے؟ تو تو بڑی ہو گئی ہے، تیری عمر نہ بڑھنے پائے۔“ یہ سن کر یتیمہ روتی ہوئی ام سلیم کے پاس پہنچی۔ ام سلیم نے پوچھا: بیٹی! کیا ہوا؟ بچی نے جواب دیا: اللہ کے نبی نے مجھے بددعا دی ہے کہ میری عمر یا میرا زمانہ طویل نہ ہونے پائے۔ ام سلیم نے جلدی جلدی چادر لپیٹی اور نکل پڑی، یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”ام سلیم! تجھے کیا ہوا؟“ اس نے جواب دیا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ نے میری یتیمہ کو بددعا دی ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”وہ کون سی ( ذرا وضاحت کرو)؟“ اس نے کہا: میری یتیمہ کہتی ہے کہ آپ نے اسے عمر بڑی نہ ہونے یا اس کا زمانہ طویل نہ ہونے کی بددعا دی ہے۔ (یہ سن کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا: ”ام سلیم! کیا تجھے علم نہیں ہے کہ میں نے اپنے رب سے شرط لگائی کہ میں بشر ہوں، عام دوسرے انسانوں کی طرح خوش بھی ہوتا ہوں اور ناراض بھی۔ سو میں جس امتی پر ایسی بددعا کر دوں جس کا وہ حقدار نہ ہو تو وہ (اللہ میرے امتی) کے حق میں اس بددعا کو پاک کرنے والی، اس کا تزکیہ کرنے والی اور اسے روز قیامت اپنے قریب کر دینے والی بنا دے؟۔“[سلسله احاديث صحيحه/المناقب والمثالب/حدیث: 3178]
سلسله احاديث صحيحه ترقیم البانی: 84
حدیث نمبر: 3179
-" أو ما علمت ما شارطت عليه ربي؟ قلت: اللهم إنما أنا بشر فأي المسلمين لعنته أو سببته فاجعله له زكاة وأجرا".
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو آدمی آئے، انہوں نے آپ سے کوئی بات کی، جسے میں نہ سمجھ سکی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصے میں آ گئے اور ان پر لعن طعن کیا۔ جب وہ چلے گئے تو میں نے (طنزیہ انداز میں) کہا: اے اللہ کے رسول! جو بھلائی ان بیچاروں کو ملی ہے، وہ تو کسی کے حق میں نہیں آئی ہو گی؟ آپ نے پوچھا: ”وہ کیسے؟“، میں نے کہا: آپ نے ان پر لعن طعن اور سب و شتم کیا ( یہ ان کی بدبختی ہے)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تجھے اس شرط کا علم نہیں، جو میں نے اپنے رب سے لگائی ہے؟ میں نے کہا: اے اللہ! میں بشر ہی ہوں، میں جس مسلمان پر لعن طعن کروں یا اسے گالی گلوچ کروں، تو تو اس چیز کو اس کے حق میں باعث تزکیہ اور باعث اجر بنا دے۔“[سلسله احاديث صحيحه/المناقب والمثالب/حدیث: 3179]