967. ہوازن کے وفد کی قیدی اور مال غنیمت واپس کرنے کا واقعہ
حدیث نمبر: 1388
-" يا أيها الناس ليس لي من هذا الفيء ولا هذه (الوبرة) إلا الخمس، والخمس مردود عليكم، فردوا الخياط والمخيط، فإن الغلول يكون على أهله يوم القيامة عارا ونارا وشنارا".
عمرو بن شعیب اپنے باپ سے، وہ ان کے دادا سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا: جب ہوازن کے وفود، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ رہے تھے، تو میں بھی وہاں موجود تھا۔ انہوں نے کہا: اے محمد! ہم کنبے قبیلے والے لوگ ہیں، آپ ہم پر احسان کریں، اللہ آپ پر احسان کرے۔ ہم پر ایسی آزمائش ٹوٹ پڑی ہے جو آپ پر مخفی نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا: ”تم لوگ بال بچوں اور مال و منال میں سے ایک چیز کا انتخاب کر لو۔“ انہوں نے کہا: آپ نے ہمیں حسب و نسب اور مال و دولت میں سے ایک چیز کا انتخاب کرنے کا اختیار دیا ہے، تو ہم اپنے بچوں کو ترجیح دیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو حصہ میرا اور بنو عبد المطلب کا ہے وہ تمہیں واپس مل جائے گا۔ جونہی میں نماز ظہر سے فارغ ہوں تو تم لوگ اس طرح کہنا: ہم اپنے بچوں اور بیویوں (کی واپسی) کے سلسلے میں رسول اللہ سے مومنوں کے پاس اور مومنوں سے رسول اللہ کے پاس سفارش کرواتے ہیں۔“ انہوں نے ایسے ہی کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بات سن کر فرمایا: ”جو کچھ میرے اور بنو عبدالمطلب کے حصے میں ہے وہ تمہارا ہے۔“ مہاجروں نے کہا: جو کچھ ہمارے حصے میں آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہے۔ انصاریوں نے بھی اسی طرح کہا۔ عیینہ بن بدر نے کہا: میرے اور بنو فزارہ کے حصے میں جو کچھ آیا وہ واپس نہیں دیا جائے گا۔ اقرع بن حابس نے کہا:! رہا مسئلہ میرا اور بنو تمیم کا ہم واپس نہیں کریں گے عباس بن مرداس نے کہا: میں اور بنو سلیم بھی واپس نہیں کریں گے۔ لیکن حیان نے کہا: تو جھوٹ بول رہا ہے وہ سب کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگو! ان کی عورتیں اور بچے ان کو واپس کر دو، جس نے حصہ لینا ہی ہے تو جونہی اللہ تعالیٰ مال فئ یا مال غنیمت عطا کرے گا ہم اسے چھ گنا دیں گے۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اونٹنی پر سوار ہوئے اور لوگ تو یہ کہتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چمٹ گئے کہ ہمارا مال ہم میں تقسیم کرو، حتی کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ببول کے درخت تک پہنچا دیا، جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر اچک لی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” لوگو! میری چادر مجھے واپس کر دو، اللہ کی قسم! اگر تہامہ کے درختوں کی تعداد کے برابر بھی اونٹ ہوئے تو میں تم میں تقسیم کر دوں گا، پھر تم مجھے بخیل، بزدل اور جھوٹا نہیں پاؤ گے۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اونٹ کے قریب گئے، اس کی کوہان کے کچھ بال اپنی شہادت والی اور درمیانی انگلی کے درمیان لے کر انہیں بلند کیا اور فرمایا: ”لوگو! اس مال غنیمت میں میرا حصہ ان بالوں جتنا بھی نہیں، سوائے خمس (پانچویں حصے) کے اور وہ بھی تم میں تقسیم کر دیا جائے گا، لہٰذا سوئی اور دھاگہ (سب کچھ) ادا کر دو، (یاد رہے کہ) خیانت روز قیامت خائنوں کے لیے عار و شنار اور عیب و رسوائی ہو گا۔“[سلسله احاديث صحيحه/الخلافة والبيعة والطاعة والامارة/حدیث: 1388]