سیدنا ابن ادرع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پہرہ دے رہا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کام کے لیے نکلے، جب مجھے دیکھا تو میرا ہاتھ بھی پکڑ لیا، پس ہم چل پڑے اور ایک ایسے شخص کے پاس سے گزرے جو نماز میں بآواز بلند تلاوت کر رہا تھا۔ اسے دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قریب ہے کہ یہ ریاکاری کرنے والا بن جائے۔“ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! وہ قرآن کی بلند آواز سے تلاوت کر رہا ہے ((بھلا اس میں کیا حرج ہے؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ چھوڑ دیا اور فرمایا: ”تم اس دین کو غلبے کے ساتھ نہیں پا سکتے۔“ وہ کہتے ہیں: پھر ایک رات کو ایسا ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی ضرورت کے لیے نکلے، جب کہ میں ہی پہرہ دے رہا تھا، (اسی طرح) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا (اور ہم چل پڑے) اور ایک ایسے شخص کے پاس سے گزرے جو نماز میں بآوز بلند قرآن کی تلاوت کر رہا تھا۔ اب کی بار میں نے کہا: قریب ہے کہ یہ شخص ریاکاری کرنے والا بن جائے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (میرا رد کرتے ہوئے) فرمایا: ”ہرگز نہیں، یہ تو بہت توبہ کرنے والا ہے۔“ جب میں نے دیکھا تو وہ عبداللہ ذو النجادین تھا۔ [سلسله احاديث صحيحه/العلم والسنة والحديث النبوي/حدیث: 375]