اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہئے کہ وہ اچھی بات کہے یا پھر چپ رہے۔ اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا «ما يلفظ من قول إلا لديه رقيب عتيد» کہ ”انسان جو بات بھی زبان سے نکالتا ہے تو اس کے (لکھنے کے لیے) ایک چوکیدار فرشتہ تیار رہتا ہے۔“[صحيح البخاري/كِتَاب الرِّقَاقِ/حدیث: Q6474]
ہم سے محمد بن ابوبکر مقدمی نے بیان کیا، کہا ہم سے عمر بن علی نے بیان کیا، انہوں نے ابوحازم سے سنا، انہوں نے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”میرے لیے جو شخص دونوں جبڑوں کے درمیان کی چیز (زبان) اور دونوں ٹانگوں کے درمیان کی چیز (شرمگاہ) کی ذمہ داری دیدے میں اس کے لیے جنت کی ذمہ داری دیتا ہوں۔“[صحيح البخاري/كِتَاب الرِّقَاقِ/حدیث: 6474]
مجھ سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابرہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہئے کہ اچھی بات کہے ورنہ خاموش رہے اور جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے اور جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی عزت کرے۔“[صحيح البخاري/كِتَاب الرِّقَاقِ/حدیث: 6475]
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سعید مقبری نے بیان کیا، ان سے ابوشریح خزاعی نے بیان کیا انہوں نے کہا کہ میرے دونوں کانوں نے سنا ہے اور میرے دل نے یاد رکھا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا ”مہمانی تین دن کی ہوتی ہے مگر جو لازمی ہے وہ تو پوری کرو۔“ پوچھا گیا لازمی کتنی ہے؟ فرمایا کہ ایک دن اور ایک رات اور جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہئے کہ اپنے مہمان کی خاطر کرے اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہئے کہ اچھی بات کہے ورنہ چپ رہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الرِّقَاقِ/حدیث: 6476]
مجھ سے ابرہیم بن حمزہ نے بیان کیا، کہا مجھ سے ابن ابی حازم نے بیان کیا، ان سے یزید بن عبداللہ نے، ان سے محمد بن ابراہیم نے، ان سے عیسیٰ بن طلحہ تیمی نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”بندہ ایک بات زبان سے نکالتا ہے اور اس کے متعلق سوچتا نہیں (کتنی کفر اور بےادبی کی بات ہے) جس کی وجہ سے وہ دوزخ کے گڑھے میں اتنی دور گر پڑتا ہے جتنا مغرب سے مشرق دور ہے۔“[صحيح البخاري/كِتَاب الرِّقَاقِ/حدیث: 6477]
مجھ سے عبداللہ بن منیر نے بیان کیا، انہوں نے ابوالنضر سے سنا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالرحمٰن بن عبداللہ یعنی ابن دینار نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے، ان سے ابوصالح نے، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”بندہ اللہ کی رضا مندی کے لیے ایک بات زبان سے نکالتا ہے اسے وہ کوئی اہمیت نہیں دیتا مگر اسی کی وجہ سے اللہ اس کے درجے بلند کر دیتا ہے اور ایک دوسرا بندہ ایک ایسا کلمہ زبان سے نکالتا ہے جو اللہ کی ناراضگی کا باعث ہوتا ہے اسے وہ کوئی اہمیت نہیں دیتا لیکن اس کی وجہ سے وہ جہنم میں چلا جاتا ہے۔“[صحيح البخاري/كِتَاب الرِّقَاقِ/حدیث: 6478]