ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے جویریہ نے بیان کیا ‘ ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (جہاد سے) واپس ہوتے تو تین بار اللہ اکبر کہتے ‘ اور یہ دعا پڑھتے «آيبون إن شاء الله تائبون عابدون حامدون لربنا ساجدون، صدق الله وعده، ونصر عبده، وهزم الأحزاب وحده»”ان شاءاللہ ہم اللہ کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ ہم توبہ کرنے والے ہیں۔ اپنے رب کی عبادت کرنے والے ہیں۔ اس کی تعریف کرنے والے اور اس کے لیے سجدہ کرنے والے ہیں۔ اللہ نے اپنا وعدہ سچا کر دکھایا ‘ اپنے بندے کی مدد کی ‘ اور کافروں کے لشکر کو اسی اکیلے نے شکست دے دی۔ “[صحيح البخاري/كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ/حدیث: 3084]
ہم سے ابومعمر نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے یحییٰ بن ابی اسحاق نے بیان کیا ‘ اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ(غزوہ بنو لحیان میں جو 6 ھ میں ہوا) عسفان سے واپس ہوتے ہوئے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ آپ اپنی اونٹنی پر سوار تھے اور آپ نے سواری پر پیچھے (ام المؤمنین) صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا کو بٹھایا تھا۔ اتفاق سے آپ کی اونٹنی پھسل گئی اور آپ دونوں گر گئے۔ یہ حال دیکھ کر ابوطلحہ رضی اللہ عنہ بھی فوراً اپنی سواری سے کود پڑے اور کہا ‘ یا رسول اللہ! اللہ مجھے آپ پر قربان کرے ‘ کچھ چوٹ تو نہیں لگی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پہلے عورت کی خبر لو۔“ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے ایک کپڑا اپنے چہرے پر ڈال لیا ‘ پھر صفیہ رضی اللہ عنہا کے قریب آئے اور وہی کپڑا ان کے اوپر ڈال دیا۔ اس کے بعد دونوں کی سواری درست کی ‘ جب آپ سوار ہو گئے تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چاروں طرف جمع ہو گئے۔ پھر جب مدینہ دکھائی دینے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا پڑھی «آيبون تائبون عابدون لربنا حامدون.»”ہم اللہ کی طرف واپس ہونے والے ہیں۔ توبہ کرنے والے ‘ اپنے رب کی عبادت کرنے والے اور اس کی حمد پڑھنے والے ہیں۔ “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا برابر پڑھتے رہے یہاں تک کہ مدینہ میں داخل ہو گئے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ/حدیث: 3085]
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے بشر بن مفضل نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے یحییٰ بن ابی اسحاق نے بیان کیا اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ وہ اور ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، ام المؤمنین صفیہ رضی اللہ عنہا کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سواری پر پیچھے بٹھا رکھا تھا۔ راستے میں اتفاق سے آپ کی اونٹنی پھسل گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم گر گئے اور ام المؤمنین بھی گر گئیں۔ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے یوں کہا کہ میں سمجھتا ہوں ‘ انہوں نے اپنے آپ کو اونٹ سے گرا دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچ کر عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اللہ مجھے آپ پر قربان کرے کوئی چوٹ تو آپ کو نہیں آئی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں لیکن تم عورت کی خبر لو۔ چنانچہ انہوں نے ایک کپڑا اپنے چہرے پر ڈال لیا ‘ پھر ام المؤمنین کی طرف بڑھے اور وہی کپڑا ان پر ڈال دیا۔ اب ام المؤمنین کھڑی ہو گئیں۔ پھر ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے آپ دونوں کے لیے اونٹنی کو مضبوط کیا۔ تو آپ سوار ہوئے اور سفر شروع کیا۔ جب مدینہ منورہ کے سامنے پہنچ گئے یا راوی نے یہ کہا کہ جب مدینہ دکھائی دینے لگا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا پڑھی «آيبون تائبون عابدون لربنا حامدون".»”ہم اللہ کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ توبہ کرنے والے ‘ اپنے رب کی عبادت کرنے والے اور اس کی تعریف کرنے والے ہیں!“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا برابر پڑھتے رہے ‘ یہاں تک کی مدینہ میں داخل ہو گئے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ/حدیث: 3086]