(آیت 37) ➊ وَ اِذْ تَقُوْلُ لِلَّذِيْۤ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِ …: ان آیات کے نزول کا سبب یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے جب یہ حکم نازل کرنے کا ارادہ فرمایا کہ منہ بولے بیٹے حقیقی بیٹوں کے حکم میں کسی طرح بھی نہیں ہیں اور یہ کہ اگر وہ اپنی بیویوں کو طلاق دے دیں، تو انھیں یعنی منہ بولے بیٹے بنانے والوں کے لیے ان سے نکاح جائز ہے، کیونکہ وہ عورتیں حقیقی بیٹوں کی بیویوں کی طرح ان کی بہو نہیں ہیں۔ تو اس وقت متبنّٰی کی رسم معاشرے میں اس قدر پختہ اور مستحکم ہو چکی تھی کہ بہت بڑے اقدام کے بغیر اس کی اصلاح ممکن نہ تھی اور ضروری تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کے علاوہ آپ کے عمل کے ساتھ اس پر کاری ضرب لگائی جائے۔ اللہ تعالیٰ جب کسی کام کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے اسباب پیدا فرما دیتا ہے۔ چنانچہ ایسا ہوا کہ زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ، جنھیں زید بن محمد کہا جاتا تھا (کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں متبنّٰی بنایا تھا، جب آیت ”اُدْعُوْهُمْ لِاٰبَائِهِمْ “ اتری تو انھیں زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کہا جانے لگا) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نکاح زینب بنت جحش رضی اللہ عنھا کے ساتھ کیا تھا۔ مزاج کے اختلاف کی وجہ سے ان دونوں میاں بیوی میں موافقت نہ رہ سکی، اس لیے زید رضی اللہ عنہ بار بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے رویے کی شکایت کرتے اور طلاق دینے کی اجازت مانگتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے معلوم ہو چکا تھا کہ زید اسے طلاق دیں گے اور وہ آپ کے نکاح میں آئیں گی۔ مگر اس ڈر سے کہ لوگ کہیں گے کہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے اپنی بہو سے نکاح کر لیا اور منافقین، یہودی اور مشرکین اسے آپ کی عصمت پر طعن کا ذریعہ بنائیں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم زید رضی اللہ عنہ کو طلاق سے منع کرتے اور یہی فرماتے کہ اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھو اور اللہ سے ڈرو۔
➋ ” لِلَّذِيْۤ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِ “ سے مراد زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ ہیں۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ”یہ آیت: « وَ تُخْفِيْ فِيْ نَفْسِكَ مَا اللّٰهُ مُبْدِيْهِ » زینب بنت جحش اور زید بن حارثہ رضی اللہ عنھما کے بارے میں نازل ہوئی۔“[ بخاري، التفسیر، باب قولہ: «و تخفي في نفسک…»: ۴۷۸۷ ] اللہ تعالیٰ کا اس پر دوسرے بے شمار انعامات کے ساتھ یہ انعام بھی تھا کہ اسے اس کے مشرک خاندان سے نکال کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچایا، پھر غلامی سے آزادی عطا فرمائی۔ اسلام قبول کرنے اور اس میں سبقت کرنے والے چار افراد میں شامل ہونے کی سعادت بخشی۔ قرآن مجید میں تمام صحابہ میں سے صرف اس کا نام صراحت کے ساتھ ذکر فرمایا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس پر دوسرے کئی انعامات کے ساتھ یہ انعام بھی تھا کہ اسے آزاد کیا، اپنا بیٹا بنایا، اپنی پھوپھی زاد کے ساتھ نکاح کیا اور اسے اپنی خاص محبت سے نوازا، چنانچہ اسے اور اس کے بیٹے اسامہ کو حِبّ رسول صلی اللہ علیہ وسلم (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب) کہا جاتا تھا۔
➌ وَ تُخْفِيْ فِيْ نَفْسِكَ مَا اللّٰهُ مُبْدِيْهِ: وہ بات کیا تھی جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چھپاتے تھے اور اللہ تعالیٰ اسے ظاہر کرنے والا تھا، اس کے متعلق تفاسیر میں متعدد اقوال مذکور ہیں۔ بعض اقوال ایسے بھی ہیں جو شانِ نبوت کے سراسر منافی ہیں، عقل کے بھی صاف خلاف ہیں اور صحیح سند کے ساتھ ثابت بھی نہیں، بعد کے لوگوں کی فضول باتیں ہیں۔ اس لیے حافظ ابن حجر فتح الباری میں فرماتے ہیں: ”ان کا بیان مناسب نہیں۔“ اور حافظ ابن کثیر نے فرمایا: ”ابن جریر اور ابن ابی حاتم وغیرہ نے یہاں بعض سلف سے کچھ آثار نقل کیے ہیں، جنھیں ذکر کرنے سے ہم نے پہلو تہی اختیار کی ہے، کیونکہ وہ ثابت نہیں ہیں۔“ مگر چونکہ ان اقوال کو لے کر مستشرقین اور اسلام کے مخالفین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر زبانِ طعن دراز کی ہے، اس لیے انھیں بیان کرنا اور ان کی حقیقت کھولنا لازم ہے۔ چنانچہ قتادہ اور ابن زید نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زید رضی اللہ عنہ کی عدم موجودگی میں ان کے گھر گئے، تو زینب رضی اللہ عنھا کو اس کی زینت میں دیکھا۔ ایک روایت میں ہے کہ ہوا سے اس کے گھر کا پردہ ہٹ گیا اور آپ نے اس کے حسن و جمال کو دیکھا تو آپ کے دل میں اس کی محبت جاگزین ہو گئی اور آپ نے فرمایا: ”سبحان ہی ہے جو دلوں کو پھیرنے والا ہے۔“ جب زید آئے تو زینب نے انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے نکلنے والے الفاظ بتائے، تو زید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور کہا: ”مجھے معلوم ہوا کہ آپ میرے گھر آئے، لیکن آپ اندر کیوں تشریف نہیں لائے؟ شاید آپ کو زینب پسند آئی ہے تو کیا میں اسے چھوڑ دوں؟“ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی بیوی اپنے پاس رکھو اور اللہ سے ڈرو۔“ تو یہ آیت اتری۔ تفسیر جلالین میں آیت کا سبب نزول یہی بیان کیا گیا ہے اور مفسر جلال نے اسی کے مطابق تفسیر کرتے ہوئے لکھا ہے: ”تو اپنے دل میں اس کی محبت چھپانے والا تھا، جسے اللہ ظاہر کرنے والا تھا اور یہ کہ اگر زید اسے طلاق دے دے تو میں اس سے نکاح کر لوں۔“ یہی تفسیر زمخشری، نسفی، ابن جریر اور ثعلبی وغیرہ نے کی ہے۔ ہاں، ابن جریر نے اس باطل تفسیر کے ساتھ وہ تفسیر بھی لکھی ہے جس میں یہ فضول باتیں نہیں ہیں اور یہ باطل روایات بھی نقل کر دی ہیں، اگرچہ سند بیان کرنے کی وجہ سے ان کا نقصان کم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان آثار میں سے کسی کی سند صحیح نہیں، نہ ہی قتادہ یا ابن زید اس واقعہ کے وقت موجود تھے، وہ تابعی ہیں اور اپنی بات کا حوالہ بھی ذکر نہیں کرتے کہ انھوں نے کس سے یہ روایت سنی ہے اور پھر یہ صریح عقل کے بھی خلاف ہے۔ زینب کوئی اجنبی خاتون نہ تھی، جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اچانک دیکھا ہو۔ وہ آپ کی پھوپھی کی بیٹی تھی، آپ کے سامنے جوان ہوئی، آپ نے اپنے (منہ بولے) بیٹے کے لیے اس کا رشتہ مانگا، اس کے ساتھ نکاح کیا، آپ کے ساتھ اس نے ہجرت کی، اس وقت تک پردے کا نہ رواج تھا، نہ اس کا حکم اترا تھا کہ اتنے سالوں تک آپ نے اسے نہ دیکھا ہو۔ غرض اس قسم کی روایات ہر لحاظ سے باطل اور جھوٹ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے کفار کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک بازی اور عفت کو بطور چیلنج ذکر کرنے کا حکم دیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: « فَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِهٖ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ »[ یونس: ۱۶ ]”پس بے شک میں تم میں اس سے پہلے ایک عمر رہ چکا ہوں، تو کیا تم نہیں سمجھتے؟“
➍ رہی یہ بات کہ پھر حقیقت میں بات کیا تھی جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دل میں چھپا رہے تھے اور اللہ تعالیٰ اسے ظاہر کرنے والا تھا، تو اس میں راجح قول وہی ہے جو اس آیت کے پہلے فائدے میں ذکر کیا گیا ہے اور جسے اکثر محقق مفسرین، مثلاً حافظ ابن کثیر اور حافظ ابن حجر وغیرہ نے اختیار کیا ہے اور ہمارے شیخ استاذ محمد عبدہ نے بھی اسی کو صحیح قرار دیا ہے، چنانچہ وہ لکھتے ہیں: ”اصل بات یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی پہلے سے خبردار کر دیا گیا تھا کہ زینب آپ کی بیوی ہونے والی ہے، مگر آپ اس کے اظہار سے شرماتے تھے کہ مخالفین الزام لگائیں گے کہ دیکھیے اپنی بہو سے نکاح کر لیا۔ اس لیے جب زید نے آکر شکایت کی تو آپ نے فرمایا: « اَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَ اتَّقِ اللّٰهَ » اس پر اللہ تعالیٰ نے عتاب آمیز لہجے میں فرمایا کہ جب میں نے آپ کو پہلے بتا دیا ہے کہ زینب کا نکاح آپ سے ہونے والا ہے تو آپ زید سے یہ بات کیوں کہہ رہے ہیں، یعنی آپ کی شان کے لائق نہیں، بلکہ بہتر یہ تھا کہ آپ خاموش رہتے، یا زید سے کہہ دیتے کہ تم جو کرنا چاہتے ہو کرو۔ علامہ آلوسی لکھتے ہیں، یہ عتاب ترک اولیٰ پر ہے۔“(اشرف الحواشی) واضح رہے کہ یہ بات صراحت کے ساتھ کسی حدیث سے ثابت نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات سے آگاہ کر دیا تھا کہ آپ کا نکاح زینب سے ہو گا، یہ صرف سدی کا قول ہے، یا علی بن حسین (زین العابدین) سے کمزور سند کے ساتھ مروی قول ہے۔ البتہ قرآن مجید کے الفاظ: ” وَ كَانَ اَمْرُ اللّٰهِ مَفْعُوْلًا “ اور ” مَا كَانَ عَلَى النَّبِيِّ مِنْ حَرَجٍ فِيْمَا فَرَضَ اللّٰهُ لَهٗ “ اور ” وَ كَانَ اَمْرُ اللّٰهِ قَدَرًا مَّقْدُوْرًا “ سے اس قول کی تائید ہوتی ہے۔
➎ فَلَمَّا قَضٰى زَيْدٌ مِّنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنٰكَهَا: ” وَطَرًا “ کا معنی حاجت ہے، یعنی جب زید نے کچھ مدت تک اپنے نکاح میں رکھنے کے بعد اسے طلاق دے دی اور اس کی عدت بھی پوری ہو گئی، جس میں انھوں نے رجوع نہیں کیا اور ثابت ہو گیا کہ ان کے دل میں زینب کے متعلق جو خواہش تھی پوری ہو چکی اور اب ان کی کوئی خواہش یا حاجت نہیں رہی، تو ہم نے اے نبی! اس کا نکاح آپ سے کر دیا۔ ابن کثیر فرماتے ہیں: ”زینب کا آپ سے نکاح کرنے والا ولی خود اللہ تعالیٰ تھا۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف وحی فرمائی کہ آپ انسانوں میں سے کسی ولی یا عقد یا مہر یا گواہوں کے بغیر (اس کے خاوند ہیں) اس کے پاس چلے جائیں۔“(ابن کثیر) انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ”جب زینب رضی اللہ عنھا کی عدت پوری ہو گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید رضی اللہ عنہ سے کہا: ”ان سے میرا ذکر کرو۔“ زید جب ان کے پاس گئے تو وہ آٹے میں خمیر ملا رہی تھیں، کہتے ہیں کہ جب میں نے انھیں دیکھا تو میرے سینے میں ان کی اتنی عظمت چھا گئی کہ میں ان کی طرف نظر بھر کر نہ دیکھ سکا، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا ذکر کیا تھا۔ غرض میں نے ان کی طرف پیٹھ کر لی اور ایڑیوں پر پھر گیا اور کہا: ”اے زینب! مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا ہے، وہ آپ کو یاد کر رہے ہیں (یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی طرف پیغامِ نکاح بھیجا ہے)۔“ زینب رضی اللہ عنھا نے کہا: ”میں اس وقت تک کوئی کام نہیں کرتی جب تک اپنے رب سے مشورہ نہ کر لوں (یعنی استخارہ نہ کر لوں)۔“ پھر وہ اپنی جائے نماز پر کھڑی ہو گئیں اور قرآن نازل ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس اجازت کے بغیر تشریف لے آئے۔“[ مسلم، النکاح، باب زواج زینب بنت جحش رضی اللہ عنھا …: ۱۴۲۸ ] انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: [ جَاءَ زَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ يَشْكُوْ فَجَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ يَقُوْلُ اتَّقِ اللّٰهَ، وَ أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ، قَالَ أَنَسٌ لَوْ كَانَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ كَاتِمًا شَيْئًا لَكَتَمَ هٰذِهِ، قَالَ فَكَانَتْ زَيْنَبُ تَفْخَرُ عَلٰي أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ تَقُوْلُ زَوَّجَكُنَّ أَهَالِيْكُنَّ، وَ زَوَّجَنِيَ اللّٰهُ تَعَالٰی مِنْ فَوْقِ سَبْعِ سَمٰوَاتٍ][بخاري، التوحید، باب: «و کان عرشہ علی الماء …»: ۷۴۲۰ ]”زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ آ کر شکایت کرنے لگے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم انھیں یہی کہتے رہے: ”اللہ سے ڈر اور اپنی بیوی کو اپنے پاس روکے رکھ۔“ انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی چیز چھپانے والے ہوتے تو اس بات کو ضرور چھپا لیتے۔“ انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پھر زینب رضی اللہ عنھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری بیویوں پر فخر کرتے ہوئے کہتی تھیں: ”تمھارا نکاح تمھارے گھر والوں نے کیا اور میرا نکاح اللہ تعالیٰ نے سات آسمانوں کے اوپر سے کیا۔“
➏ لِكَيْ لَا يَكُوْنَ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ حَرَجٌ …: یعنی ہم نے زینب رضی اللہ عنھا کا نکاح آپ سے اس لیے کر دیا کہ جاہلی رسم کے مطابق اپنے منہ بولے بیٹے کی مطلقہ سے نکاح کو جو حرام سمجھا جاتا تھا، آپ کے عملی اقدام سے یہ رسم ختم کی جائے اور ایمان والوں کو اپنے منہ بولے بیٹوں کی مطلقہ عورتوں کے ساتھ نکاح میں کوئی تنگی نہ رہے اور وہ کسی گناہ یا عار کے احساس کے بغیر ان سے نکاح کر سکیں۔
➐ وَ كَانَ اَمْرُ اللّٰهِ مَفْعُوْلًا: یعنی اللہ کا یہ فیصلہ پورا ہو کر رہنے والا تھا کہ متبنّٰی حقیقی بیٹا نہیں ہوتا، نہ اسے متبنّٰی بنانے والے کے لیے اس کی مطلقہ سے نکاح حرام ہے اور یہ فیصلہ بھی پورا ہو کر رہنا تھا کہ زینب رضی اللہ عنھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آئیں گی۔