(آیت 31) ➊ وَ مَنْ يَّقْنُتْ مِنْكُنَّ لِلّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ …: اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں سے فرمایا کہ جس طرح تمھارے لیے گناہ پر عذاب دگنا ہے اسی طرح اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فرماں برداری اور عمل صالح پر ثواب بھی دگنا ہے، کیونکہ جس طرح تمھارے گناہ میں اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کے ساتھ ان کی ایذا بھی ہے، اسی طرح ان کی فرماں برداری پر اطاعت کے ساتھ ان کی خاص خوشی بھی ہے۔ دوہرے گناہ اور دوہرے ثواب کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ازواج مطہرات امت کے لیے نمونہ ہیں۔ انھیں دیکھ کر اگر کسی نے گناہ کیا تو اس کا وبال ان پر بھی ہو گا اور اگر انھیں دیکھ کر کسی نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت اختیار کی تو اس کا ثواب انھیں بھی ملے گا۔
➋ وَ اَعْتَدْنَا لَهَا رِزْقًا كَرِيْمًا: ازواج مطہرات کو اختیار دینے کے حکم کا باعث ان کا خرچے میں اضافے کا مطالبہ تھا۔ انھوں نے اللہ اور اس کے رسول کو ترجیح دی تو اللہ تعالیٰ نے انھیں بشارت دیتے ہوئے فرمایا کہ تم میں سے جو آخرت کی طلب میں اللہ اور اس کے رسول کی فرماں بردار رہے اور عمل صالح کرے، ہم نے اس کے لیے بہت عزت والا رزق تیار کر رکھا ہے۔ مفسرین نے اس رزق کریم سے مراد جنت کا رزق بیان فرمایا ہے۔ یقینا اس سے زیادہ عزت والا رزق کوئی نہیں، مگر اس میں جنت کے علاوہ آئندہ ہونے والی فتوحات کے حوالے سے رزق کی فراخی کی بشارت بھی ہے، کیونکہ مالِ غنیمت بھی رزق کریم ہے، جس کے حصول میں رزق کے ساتھ فتح کی عزت بھی ہوتی ہے۔ چنانچہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں: ”جب خیبر فتح ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے خمس میں سے ہر بیوی کو اسّی (۸۰) وسق (دو سو چالیس من) کھجوریں اور بیس (۲۰) وسق (ساٹھ من) جو دیا کرتے تھے (اور یہ وظیفہ آپ کی وفات کے بعد بھی جاری رہا)۔“[ أبو داوٗد، الخراج، باب ما جاء في حکم أرض خیبر: ۳۰۰۶، و قال الألباني حسن الإسناد ] یہ الگ بات ہے کہ امہات المومنین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت کے نتیجے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی طرح اسے اللہ کی راہ میں خرچ کر دیتیں اور اسی زندگی پر قناعت کرتیں جو انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا پر ترجیح دیتے ہوئے اختیار کی تھی۔