تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 30)يٰنِسَآءَ النَّبِيِّ مَنْ يَّاْتِ مِنْكُنَّ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ …: قاموس میں ہے: اَلْفَاحِشَةُ الزِّنَا وَمَا يَشْتَدُّ قَبْحُهُ مِنَ الذُّنُوْبِ وَ كُلُّ مَا نَهَي اللّٰهُ عَنْهُ یعنی فاحشہ کا معنی ہے زنا اور وہ گناہ جو سخت قبیح ہوں اور ہر وہ چیز جس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔ قرآن مجید میں اَلْفَاحِشَةُ (خاص بے حیائی، معرف باللام) کا لفظ زنا کے لیے آیا ہے، جیسا کہ فرمایا: « وَ الّٰتِيْ يَاْتِيْنَ الْفَاحِشَةَ مِنْ نِّسَآىِٕكُمْ فَاسْتَشْهِدُوْاش عَلَيْهِنَّ اَرْبَعَةً مِّنْكُمْ » [ النساء: ۱۵ ] اور تمھاری عورتوں میں سے جو بدکاری کا ارتکاب کریں، ان پر اپنے میں سے چار مرد گواہ طلب کرو۔ جبکہ فَاحِشَةٌ (نکرہ) سے مراد کوئی بھی گناہ ہوتا ہے اور فَاحِشَةٌ مُّبَيِّنَةٌ سے مراد فحش کلامی، بد خلقی، ایذا رسانی یا کوئی بھی علانیہ گناہ لیا گیا ہے، جس میں زنا بھی شامل ہے۔ دیکھیے سورۂ نساء (۱۹) یہاں سے امہات المومنین کو ادب سکھانے کے لیے چند نصیحتیں کی گئیں ہیں، کیونکہ وہ امت کے لیے نمونہ ہیں۔ فرمایا، اے نبی کی بیویو! تم میں سے جو کھلی بے حیائی عمل میں لائے گی اس کا عذاب دگنا بڑھایا جائے گا، یعنی تم میں سے جو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بدخلقی یا فحش کلامی یا ایذا رسانی کا معاملہ کرے گی اسے دگنا عذاب دیا جائے گا، کیونکہ جس کا مقام جتنا بلند ہوتا ہے نافرمانی کی صورت میں اسے سزا بھی اتنی سخت ملتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار کی طرف مائل ہونے کی صورت میں فرمایا: « اِذًا لَّاَذَقْنٰكَ ضِعْفَ الْحَيٰوةِ وَ ضِعْفَ الْمَمَاتِ » [ بني إسرائیل: ۷۵ ] اس وقت ہم ضرور تجھے زندگی کے دگنے اور موت کے دگنے (عذاب)کا مزہ چکھاتے۔

الوسیط (للطنطاو ی) میں لکھا ہے: کسی نے حسین رضی اللہ عنہ کے بیٹے علی زین العابدین سے کہا، تم اہلِ بیت تو بخشے بخشائے ہو۔ تو وہ غصے میں آ گئے اور کہنے لگے کہ ہم پر تو وہ قانون زیادہ لاگو ہونا چاہیے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں پر لاگو کیا کہ ہمارے برائی کرنے والے کو دگنا عذاب ہو اور ہمارے نیکی کرنے والے کو دگنا ثواب ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں سے گناہ کے ارتکاب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی حرف آتا تھا اور یہ آپ کے لیے سخت تکلیف کا باعث ہوتا، جو عام مسلمانوں کو تکلیف پہنچانے سے بڑا گناہ اور اللہ تعالیٰ کی لعنت کا باعث ہے، فرمایا: « اِنَّ الَّذِيْنَ يُؤْذُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فِي الدُّنْيَا وَ الْاٰخِرَةِ وَ اَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِيْنًا » [ الأحزاب: ۵۷ ] بے شک وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسول کو تکلیف پہنچاتے ہیں اللہ نے ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت کی اور ان کے لیے ذلیل کرنے والا عذاب تیار کیا۔

بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ کا لفظ نکرہ ہونے کی وجہ سے عام ہے، اس لیے اس سے بد خلقی، فحش کلامی کے علاوہ زنا بھی مراد ہو سکتا ہے۔ اس صورت میں سوال اٹھتا ہے کہ معاذ اللہ، کیا ازواج مطہرات سے برائی کا اندیشہ تھا؟ جواب اس کا یہ ہے کہ یہ جملہ شرطیہ ہے، واقع میں ایسا ہونا ضروری نہیں، مقصود صرف ازواج مطہرات کے مرتبے کے پیش نظر ان کو گناہ کے ارتکاب کی صورت میں دگنے عذاب سے خبردار کرنا ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے بھی بڑے، بلکہ تمام گناہوں سے بڑے گناہ کے انجام سے خبردار کرتے ہوئے فرمایا: « وَ لَقَدْ اُوْحِيَ اِلَيْكَ وَ اِلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكَ لَىِٕنْ اَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَ لَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ » [ الزمر: ۶۵ ] اور بلاشبہ یقینا تیری طرف وحی کی گئی اور ان لوگوں کی طرف بھی جو تجھ سے پہلے تھے کہ بلاشبہ اگر تو نے شریک ٹھہرایا تو یقینا تیرا عمل ضرور ضائع ہو جائے گا اور تو ضرور بالضرور خسارہ اٹھانے والوں سے ہو جائے گا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یا پہلے انبیاء سے شرک کے ارتکاب کا اندیشہ تھا۔

وَ كَانَ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ يَسِيْرًا: یعنی تمھیں غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ تم نبی کی بیویاں ہو اور تم پر کوئی گرفت نہ ہو گی۔



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.