جن اور انسانوں کی طرف رسول بھیج کر، کتابیں اتار کر ان کے عذر ختم کر دیئے اس لیے کہ یہ اللہ کا اصول نہیں کہ وہ کسی بستی کے لوگوں کو اپنی منشاء معلوم کرائے بغیر چپ چاپ اپنے عذابوں میں جکڑ لے اور اپنا پیغام پہنچائے بغیر بلا وجہ ظلم کے ساتھ ہلاک کر دے -
فرماتا ہے آیت «وَاِنْ مِّنْ اُمَّةٍ اِلَّا خَلَا فِيْهَا نَذِيْرٌ»[35-فاطر:24] یعنی ” کوئی بستی ایسی نہیں جہاں کوئی آگاہ کرنے والا نہ آیا ہو “۔
اور آیت میں ہے «وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّـهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ»[16-النحل:36] ” ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ اے لوگو! اللہ ہی کی عبادت کرو اور اس کے سوا ہر ایک کی عبادت سے بچو “۔ اور جگہ ہے «وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّىٰ نَبْعَثَ رَسُولًا»[17-الإسراء:15] ” ہم رسولوں کو بھیجنے سے پہلے عذاب نہیں کیا کرتے “۔
سورۃ تبارک میں ہے «تَكَادُ تَمَيَّزُ مِنَ الْغَيْظِ كُلَّمَا أُلْقِيَ فِيهَا فَوْجٌ سَأَلَهُمْ خَزَنَتُهَا أَلَمْ يَأْتِكُمْ نَذِيرٌ قَالُوا بَلَىٰ قَدْ جَاءَنَا نَذِيرٌ فَكَذَّبْنَا وَقُلْنَا مَا نَزَّلَ اللَّـهُ مِن شَيْءٍ إِنْ أَنتُمْ إِلَّا فِي ضَلَالٍ كَبِيرٍ»[67-الملك:8-9] ” جب جہنم میں کوئی جماعت جائے گی تو وہاں کے داروغے ان سے کہیں گے کہ کیا تمہارے پاس آ گاہ کرنے والے نہیں آئے تھے؟ وہ کہیں گے آئے تھے “ اور بھی اس مضمون کی بہت سی آیتیں ہیں۔
اس آیت کے پہلے جملے کے ایک معنی امام ابن جریر رحمہ اللہ نے اور بھی بیان کئے ہیں اور فی الواقع وہ معنی بہت درست ہیں امام صاحب نے بھی اسی کو ترجیح دی ہے یعنی یہ کہ ”کسی بستی والوں کے ظلم اور گناہوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ انہیں اسی وقت ہلاک نہیں کرتا جب تک نبیوں کو بھیج کر انہیں غفلت سے بیدار نہ کر دے، ہر عامل اپنے عمل کے بدلے کا مستحق ہے۔ نیک نیکی کا اور بد بدی کا، خواہ انسان ہو خواہ جن ہو۔“
بدکاروں کے جہنم میں درجے ان کی بدکاری کے مطابق مقرر ہیں جو لوگ خود بھی کفر کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی راہ الہیہ سے روکتے ہیں انہیں عذاب پر عذاب ہوں گے اور ان کے فساد کا بدلہ ملے گا ہر عامل کا عمل اللہ پر روشن ہے تاکہ قیامت کے دن ہر شخص کو اس کے کئے ہوئے کا بدلہ مل جائے۔