(آیت 28) ➊ يٰۤاَيُّهَا النَّبِيُّ …: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ دنیا پر آخرت کو ترجیح دیتے اور مال غنیمت میں سے خمس کا اختیار رکھنے کے باوجود سب کچھ ضرورت مندوں پر خرچ کر دیتے۔ نتیجہ اس کا گھر میں تنگی و ترشی کے ساتھ گزارا تھا۔ عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں: [ مَا شَبِعَ آلُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ مُنْذُ قَدِمَ الْمَدِيْنَةَ مِنْ طَعَامِ بُرٍّ ثَلَاثَ لَيَالٍ تِبَاعًا حَتّٰی قُبِضَ ][ بخاري، الرقاق، باب کیف کان عیش النبي صلی اللہ علیہ وسلم و أصحابہ…: ۶۴۵۴ ]”محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں نے، جب سے آپ مدینہ میں آئے، تین دن پے در پے گندم کا کھانا سیر ہو کر نہیں کھایا، یہاں تک کہ آپ فوت ہو گئے۔“ عائشہ رضی اللہ عنھا ہی نے بیان فرمایا: [ مَا أَكَلَ آلُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ أَكْلَتَيْنِ فِيْ يَوْمٍ إِلَّا إِحْدَاهُمَا تَمْرٌ ][ بخاري، الرقاق، کیف کان عیش النبي صلی اللہ علیہ وسلم …: ۶۴۵۵ ]”محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں نے کسی دن دو دفعہ کھانا نہیں کھایا، مگر ان میں سے ایک دفعہ صرف کھجور ہوتی تھی۔“ عائشہ رضی اللہ عنھا نے اپنے بھانجے عروہ سے فرمایا: [ ابْنَ أُخْتِيْ! إِنْ كُنَّا لَنَنْظُرُ إِلَی الْهِلاَلِ ثَلاَثَةَ أَهِلَّةٍ فِيْ شَهْرَيْنِ، وَمَا أُوْقِدَتْ فِيْ أَبْيَاتِ رَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ نَارٌ فَقُلْتُ مَا كَانَ يُعِيْشُكُمْ؟ قَالَتِ الْأَسْوَدَانِ التَّمْرُ وَ الْمَاءَ إِلاَّ أَنَّهُ قَدْ كَانَ لِرَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ جِيْرَانٌ مِنَ الْأَنْصَارِ كَانَ لَهُمْ مَنَائِحُ، وَكَانُوْا يَمْنَحُوْنَ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ مِنْ أَبْيَاتِهِمْ، فَيَسْقِيْنَاهُ ][بخاري، الرقاق، باب کیف کان عیش النبي صلی اللہ علیہ وسلم …: ۶۴۵۹ ]”بھانجے! ہم چاند دیکھتے تھے، دو مہینوں میں تین چاند، اس حال میں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں میں آگ نہیں جلی ہوتی تھی۔“ میں نے کہا: ”پھر تمھیں کیا چیز زندہ رکھتی تھی؟“ کہا: ”دو سیاہ چیزیں، کھجور اور پانی، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انصار میں سے کچھ پڑوسی تھے جن کے پا س دودھ والے جانور تھے اور وہ اپنے گھروں سے (کچھ دودھ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطور تحفہ دے دیا کرتے تھے اور آپ ہمیں وہ پلا دیتے۔“
ابن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں: [ كَانَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ يَبِيْتُ اللَّيَالِيَ الْمُتَتَابِعَةَ طَاوِيًا وَ أَهْلُهُ لَا يَجِدُوْنَ عَشَاءً][ ترمذي، الزھد، باب ما جاء في معیشۃ النبي صلی اللہ علیہ وسلم و أھلہ: ۲۳۶۰، وقال الألبانی حسن ]”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کئی راتیں خالی پیٹ گزار دیتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں کو شام کا کھانا نہیں ملتا تھا۔“ عائشہ رضی اللہ عنھا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر کے متعلق بتایا: [ كَانَ فِرَاشُ رَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ مِنْ أَدَمٍ، وَحَشْوُهُ مِنْ لِيْفٍ ][بخاري، الرقاق، باب کیف کان عیش النبي صلی اللہ علیہ وسلم …: ۶۴۵۶ ]”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بستر چمڑے کا تھا، جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی۔“ لطف یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس حال پر خوش تھے اور آپ نے اسے اللہ تعالیٰ سے مانگ کر لیا تھا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ اَللّٰهُمَّ اجْعَلْ رِزْقَ آلِ مُحَمَّدٍ قُوْتًا ][ مسلم، الزکاۃ، باب في الکفاف و القناعۃ: ۱۰۵۵ ]”اے اللہ! آل محمد کا رزق گزارے کے برابر کر دے۔“ انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ اَللّٰهُمَّ أَحْيِنِيْ مِسْكِيْنًا وَ أَمِتْنِيْ مِسْكِيْنًا وَاحْشُرْنِيْ فِيْ زُمْرَةِ الْمَسَاكِيْنِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ لِمَ يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ!؟ قَالَ إِنَّهُمْ يَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ قَبْلَ أَغْنِيَائِهِمْ بِأَرْبَعِيْنَ خَرِيْفًا ][ ترمذي، الزھد، باب ما جاء أن فقراء المھاجرین…: ۲۳۵۲ ]”اے اللہ! مجھے مسکین ہونے کی حالت میں زندہ رکھنا، مسکین ہونے کی حالت میں موت دے اور مسکینوں کی جماعت سے اٹھا۔“ عائشہ رضی اللہ عنھا نے پوچھا: ”یا رسول اللہ! یہ کیوں؟“ آپ نے فرمایا: ”وہ جنت میں اپنے اغنیاء سے چالیس (۴۰) سال پہلے جائیں گے۔“ ظاہر ہے زندگی کا یہ معیار نہایت صبر آزما اور مشکل ہے، اس معیار زندگی میں آپ کے ساتھ ازواج مطہرات بھی شریک تھیں۔
➋ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ: بنوقریظہ کے اموال اور دوسری فتوحات کے نتیجے میں جب مسلمانوں کی حالت کچھ بہتر ہو گئی تو انصار و مہاجرین کی عورتوں کو دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں نے بھی نان و نفقہ میں اضافے کا مطالبہ کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی صورت اپنی زہد و قناعت کی زندگی ترک کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ بیویوں کے اصرار پر آپ کو سخت رنج اور صدمہ ہوا اور آپ نے قسم کھا لی کہ میں ایک ماہ تک تمھارے پاس نہیں آؤں گا۔ اسے ”ایلاء“ کہتے ہیں۔ (دیکھیے بقرہ: ۲۲۶، ۲۲۷) پھر آپ پر یہ آیات نازل ہوئیں۔ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہونے کی اجازت لینے کے لیے آئے تو دیکھا کہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر بیٹھے ہیں، ان میں سے کسی کو اجازت نہیں ملی۔ خیر ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اجازت مل گئی، وہ اندر آ گئے، پھر عمر رضی اللہ عنہ اجازت کے لیے آئے، انھیں بھی اجازت مل گئی۔ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہیں اور آپ کے گرد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں ہیں، آپ غمگین اور خاموش ہیں۔ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا: ”میں ضرور کوئی ایسی بات کروں گا جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہنساؤں گا۔“ چنانچہ وہ کہنے لگے: ”یا رسول اللہ! کبھی آپ خارجہ کی بیٹی (میری بیوی) کو دیکھتے، اس نے مجھ سے خرچہ مانگا تو میں نے اٹھ کر اس کی گردن دبا دی۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے اور فرمانے لگے: ”یہ سب میرے اردگرد بیٹھی ہیں، جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو، یہ مجھ سے خرچہ مانگتی ہیں۔“ تو ابوبکر رضی اللہ عنہ عائشہ رضی اللہ عنھا کی گردن دبانے کے لیے کھڑے ہو گئے اور عمر رضی اللہ عنہ حفصہ رضی اللہ عنھا کی گردن دبانے کے لیے اٹھے۔ دونوں کہہ رہے تھے کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ مانگتی ہو جو آپ کے پاس نہیں ہے۔ وہ دونوں کہنے لگیں: ”اللہ کی قسم! ہم کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ چیز نہیں مانگیں گی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہ ہو۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے ایک ماہ یا انتیس دن علیحدہ رہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت نازل ہوئی: « يٰۤاَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا وَ زِيْنَتَهَا فَتَعَالَيْنَ اُمَتِّعْكُنَّ وَ اُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيْلًا »[ الأحزاب: ۲۸ ][ مسلم، الطلاق، باب بیان أن تخییرہ امرأتہ…: ۱۴۷۵ ]
➌ اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا وَ زِيْنَتَهَا: صحیح بخاری میں عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ایک لمبی حدیث میں ہے کہ بیویوں سے ایک ماہ تک علیحدہ رہنے کی قسم کا ایک باعث حفصہ رضی اللہ عنھا کا عائشہ رضی اللہ عنھا کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا راز بتانا بھی تھا، جس کا ذکر سورۂ تحریم میں ہے۔ اسی حدیث میں ہے کہ جب انتیس دن گزر گئے تو سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم عائشہ رضی اللہ عنھا کے پاس تشریف لائے۔ انھوں نے آپ سے کہا: ”آپ نے تو ہمارے ہاں ایک ماہ تک نہ آنے کی قسم کھائی تھی اور ابھی انتیس راتیں گزری ہیں، میں انھیں اچھی طرح گنتی رہی ہوں۔“ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ مہینا انتیس دنوں کا ہے۔“ اور وہ مہینا تھا بھی انتیس دنوں کا۔ عائشہ رضی اللہ عنھا نے کہا: ”پھر اللہ تعالیٰ نے اختیار دینے کی آیت نازل فرمائی تو سب بیویوں سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا، فرمایا: ”میں تم سے ایک بات کہنے لگا ہوں، کوئی حرج نہیں کہ اس کے جواب میں جلدی نہ کرو اور اپنے ماں باپ سے مشورہ کر لو۔“ عائشہ رضی اللہ عنھا نے کہا: ”میں خوب جانتی تھی کہ میرے ماں باپ مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جدا ہونے کی رائے کبھی نہیں دیں گے۔“ پھر آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے فرمایا: « يٰۤاَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ اِنْ كُنْتُنَّ … اَجْرًا عَظِيْمًا »[ الأحزاب: ۲۸، ۲۹ ] میں نے کہا: ”کیا میں اس کے متعلق اپنے ماں باپ سے مشورہ کروں گی؟ میں تو اللہ اور اس کے رسول کو اور آخرت کے گھر کو چاہتی ہوں۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی باقی بیویوں کو بھی اختیار دیا، انھوں نے بھی وہی بات کہی جو عائشہ رضی اللہ عنھا نے کہی تھی۔ [ بخاري، المظالم، باب الغرفۃ و العلیۃ …: ۲۴۶۸ ]
➍ ابن کثیر نے عکرمہ کا قول نقل فرمایا ہے کہ اس وقت آپ کے نکاح میں نو (۹) بیویاں تھیں، پانچ قریش سے تھیں: عائشہ، حفصہ، ام حبیبہ، سودہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنھن اور بنو نضیر سے صفیہ بنت حیی، بنو ہلال سے میمونہ بنت حارث، بنو اسد سے زینب بنت جحش اور بنو المصطلق سے جویریہ بنت الحارث رضی اللہ عنھن۔
➎ عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں: ”ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار دیا، ہم نے اللہ اور اس کے رسول کو پسند کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ہم پر کچھ شمار نہیں کیا۔“[ بخاري، الطلاق، باب من خیّر أزواجہ…: ۵۲۶۲ ] اس سے معلوم ہوا اختیار دینے کے بعد بیوی خاوند کے پاس رہنا پسند کرے تو اس سے کسی قسم کی طلاق واقع نہیں ہوتی۔
➏ فَتَعَالَيْنَ اُمَتِّعْكُنَّ: ”تَعَالَيْنَ“(آؤ)”عَلَا يَعْلُوْ“ سے باب تفاعل میں سے جمع مؤنث امر حاضر کا صیغہ ہے۔ اصل اس کا یہ ہے کہ کوئی شخص اونچی جگہ کھڑا ہو کر کسی سے کہے اوپر آؤ، پھر کسی کو بھی بلانے کے لیے ”تَعَالَ“(آؤ) استعمال ہونے لگا۔
➐ اُمَتِّعْكُنَّ وَ اُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيْلًا: آیت کا مطلب یہ ہے کہ اے نبی! اپنی بیویوں سے کہہ دیجیے کہ اپنے لیے دو چیزوں میں سے ایک چیز پسند کر لو، پہلی یہ کہ اگر تم دنیا کی زندگی، اس کی زیب و زینت اور آرائش کو پسند کرتی ہو تو میرے ساتھ تمھارے رہنے کی کوئی صورت نہیں، پھر آؤ میں تمھیں کچھ سامان دے دیتا ہوں (جس کا طلاق دیتے وقت اپنی حیثیت کے مطابق دینے کا حکم ہے، جسے ”متعه طلاق“ کہتے ہیں۔ دیکھیے سورۂ بقرہ: ۲۳۶ تا ۲۴۱) اور تمھیں اچھے طریقے سے چھوڑ دیتا ہوں، یعنی کوئی طعن و تشنیع کیے یا کوئی تکلیف دیے بغیر طلاق دے کر آزاد کر دیتا ہوں۔ دوسری چیز کا ذکر اگلی آیت میں ہے۔