(آیت 27) ➊ وَ اَوْرَثَكُمْ اَرْضَهُمْ وَ دِيَارَهُمْ وَ اَمْوَالَهُمْ: غزوۂ بنو قریظہ میں ان کے مردوں کو قتل کرنے اور ان کی عورتوں اور بچوں کو لونڈی و غلام بنانے کے علاوہ ان کے کھیت، باغات، مکانات، قلعے، مویشی، ہتھیار اور درہم و دینار وغیرہ سب مسلمانوں کی ملکیت میں آ گئے، جو خُمس نکال کر مسلمانوں میں تقسیم کر دیے گئے۔
➋ وَ اَرْضًا لَّمْ تَطَـُٔوْهَا: ”وَطِئَ يَطَأُ وَطْأً“”اَلشَّيْءَ بِرِجْلِهِ“ کسی چیز کو پاؤں سے روندنا۔ یعنی اس زمین کا بھی مالک بنا دیا جس پر تم نے قدم نہیں رکھا تھا۔ مراد اس سے بنو قریظہ کی زمین ہی ہے، یعنی ان کی وہ زمین جہاں ان کی قوت و شوکت کی وجہ سے تم قدم تک نہ رکھ سکتے تھے، اللہ تعالیٰ نے تمھاری میراث بنا دی۔ بعض مفسرین نے اس سے بنو قریظہ کے بعد فتح ہونے والے علاقے، مثلاً خیبر، پھر مکہ، حنین، تبوک، فارس، روم، غرض قیامت تک مسلمانوں کی ملکیت میں آنے والے تمام علاقے مراد لیے ہیں۔ مگر اس صورت میں ” وَ اَوْرَثَكُمْ اَرْضَهُمْ وَ دِيَارَهُمْ وَ اَمْوَالَهُمْ “ کے بعد ”وَيُوَرِّثُكُمْ أَرْضًا لَمْ تَطَؤهَا“ ہونا چاہیے تھا، یعنی یہ کہنا چاہیے تھا کہ اللہ تعالیٰ نے تمھیں بنو قریظہ کی زمین، ان کے گھروں اور ان کے اموال کا وارث بنا دیا اور وہ تمھیں ایسی زمین کا وارث بھی بنائے گا جس پر تم نے قدم نہیں رکھا۔ اگرچہ اس کا جواب دیا گیا ہے کہ قرآن میں آئندہ ہونے والے واقعات کو یقینی ہونے کی وجہ سے ماضی کے صیغے کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، مگر ایک ہی ماضی کے صیغے ” وَ اَوْرَثَكُمْ “ کے ساتھ ماضی اور مستقبل دونوں مراد لینا بہرحال قابلِ غور ہے۔
➌ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرًا: یعنی یہ سب کچھ تمھاری بہادری یا مہارت کی وجہ سے نہیں ہوا، بلکہ محض اللہ کی مدد سے ہوا اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر ہمیشہ سے پوری طرح قادر ہے، اس کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں۔