(آیت 22) ➊ وَ لَمَّا رَاَ الْمُؤْمِنُوْنَ الْاَحْزَابَ …: کفار کے لشکروں کی کثرتِ تعداد، محاصرے کی سختی، سردی اور بھوک کی شدت اور بنو قریظہ کی عہد شکنی کی وجہ سے جب حالات نہایت سنگین ہو گئے تو اس وقت منافقوں کا اور شکوک و شبہات کے مریض مسلمانوں کا حال اوپر بیان ہوا کہ انھوں نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول کے وعدے محض فریب تھے، اب مخلص مومنوں کا حال بیان ہوتا ہے کہ انھوں نے ان سختیوں کو دیکھ کر کہا کہ یہ تو آزمائش، تنگی اور تکلیف کے وہی مرحلے ہیں جن کے آنے کی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے پہلے ہی خبر دے رکھی ہے اور جن پر صبر کے بعد اس کی نصرت کا وعدہ ہے، جیسا کہ فرمایا: « اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَ لَمَّا يَاْتِكُمْ مَّثَلُ الَّذِيْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ١ؕ مَسَّتْهُمُ الْبَاْسَآءُ وَ الضَّرَّآءُ وَ زُلْزِلُوْا حَتّٰى يَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ مَتٰى نَصْرُ اللّٰهِ اَلَاۤ اِنَّ نَصْرَ اللّٰهِ قَرِيْبٌ»[ البقرۃ:۲۱۴ ]”یا تم نے گمان کر رکھا ہے کہ تم جنت میں داخل ہو جاؤ گے، حالانکہ ابھی تک تم پر ان لوگوں جیسی حالت نہیں آئی جو تم سے پہلے تھے، انھیں تنگی اور تکلیف پہنچی اور وہ سخت ہلائے گئے، یہاں تک کہ وہ رسول اور جو لوگ اس کے ساتھ ایمان لائے تھے، کہہ اٹھے اللہ کی مدد کب ہوگی؟ سن لو! بے شک اللہ کی مدد قریب ہے۔“
➋ وَ صَدَقَ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ: یعنی اللہ اور اس کے رسول نے آزمائش کا جو وعدہ کیا تھا وہ سچا تھا اور اس پر صبر کے بعد مسلمانوں کی فتح و نصرت اور کفار کی شکست کا وعدہ بھی سچا تھا، جو سورۂ بقرہ (۲۱۴) میں ” اَلَاۤ اِنَّ نَصْرَ اللّٰهِ قَرِيْبٌ “ کے الفاظ کے ساتھ کیا گیا اور اس سے پہلے مکہ میں نازل ہونے والی سورۂ قمر (۴۵) میں ” سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَ يُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ “ کے الفاظ کے ساتھ کیا گیا تھا۔
➌ وَ مَا زَادَهُمْ اِلَّاۤ اِيْمَانًا وَّ تَسْلِيْمًا: یعنی وہ پہلے سے بھی زیادہ ایمان میں پختہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام ماننے والے بن گئے۔ یہ آیت دلیل ہے کہ آدمی کے ایمان میں زیادتی اور کمی ہوتی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں آٹھ آیات اور متعدد احادیث سے یہ بات مدلل فرمائی ہے۔ ان لوگوں پر تعجب ہوتا ہے جو صریح آیات و احادیث کے باوجود مصر ہیں کہ ایمان میں نہ کمی ہوتی ہے، نہ زیادتی۔